بحث وتحقیق

تفصیلات

عید الاضحی: فضائل اور مسائل

عید الاضحی: فضائل اور مسائل

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

 کسی بھی دین ومذہب کے اجتماعی تیوہار اور تقریبات اس کی نمایاں علامت بن جاتے ہیں جن سے اس دین کے مزاج ومذاق اور زندگی اور کائنات کے سلسلے میں اس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی ہوتی ہے۔

 اللہ کے نبیﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار(مدنی مسلمانوں) کو دیکھا کہ سال کے دو دنوں میں تفریح کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپﷺ نے ان کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ عہدِ جاہلیت سے ہمارا یہ طرزِ عمل چلا آرہا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہیں ان سے بہتر ایام بخش دیے ہیں، عید الأضحی کا دن اور عید الفطر کا دن۔‘‘[ماہذان الیومان قالو کنا نلعب فیہما فی الجاہلیۃ فقال رسول اللّٰہﷺ إن اللہ قد أبدلکم بہما خیرا منہما یوم الأضحی ویوم الفطر](سنن ابو داؤدؒ: ۱۱۳۴) 

اللہ کے نبیﷺ نے اپنی امت کو بتایا ہے کہ یہ عیدیں ہمارے دین کا شعار اور علامت ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’ہر قوم کا تیوہار ہوتا ہے، اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘[إن لکل قوم عید وہذا عیدنا](صحیح بخاریؒ:۹۰۹۔ صحیح مسلمؒ:۸۹۲)

 اسلام کی نگاہ میں عید وہ دن ہے جس میں بندہ خوشی اور مسرت کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اس نے روزے اور قربانی کی عبادت کو اپنی بساط بھر کوشش کرکے خوب سے خوب تر انداز میں انجام دینے کی توفیق پائی۔ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اسے دینِ حق کی ہدایت دی۔عید کے دن عام لوگوں کی دل دہی ودل آسائی کرنا اور ہر ایک کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا ایک دینی مطالبہ ہے۔ اس روز بہترین لباس زیب تن کیا جائے۔ ضرورت مندوں کے ضروریات پوری کی جائیں۔ تمام جائز وسائل مثلاً مل کر اور زیارتوں وغیرہ کے ذریعے سے ہر ایک کو شادمانی ومسرت کا احساس کرایا جائے اور اللہ کی نعمتیں یاد دلائی جائیں۔

 پورے سال میں مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں؛عید الأضحی اور عید الفطر۔ ان دو کے علاوہ کسی بھی دن کو تیوہار کا دن یا اجتماعی تقریب اور ملّی فرحت کا دن قرار دینا جائز نہیں۔ 

عید الفطر ماہِ شوال کے پہلے دن ہوتی ہے اور عید الأضحی ماہِ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو پڑتی ہے۔

 دونوں عیدوں کے چند مشترکہ کام یہ ہیں:
 ۱-عید کی نماز پڑھنا مسنون ہے۔ یہ ملت کا شعار اور اس کے جداگانہ تشخص کا اظہار ہے۔ اس لیے اسلام نے اس نماز کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلیں۔ ممکن ہو تو بچوں اور مستورات کو بھی عیدگاہ لائیں۔

جب آفتاب افق میں ایک نیزے کے برابر اونچا ہوجائے تو نمازِ عید کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور زوالِ آفتاب تک باقی رہتا ہے۔

 نمازِ عید دو رکعات پر مشتمل ہوتی ہے جس میں امام زور سے قرأت کرتا ہے اور نماز کے بعد دو خطبے دیتا ہے۔ نمازِ عید کی ہر رکعت کے شروع میں کچھ زائد تکبیریں کہنا مسنون ہے۔ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے چھے زائد تکبیریں کہی جائیں گی جو تکبیرِ احرام کے علاوہ ہوں گی۔ اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ زائد تکبیریں کہی جائیں گی جو سجدے سے اٹھ کر حالتِ قیام میں پہنچانے والی تکبیر سے زائد اور اس پر اضافہ ہوں گی۔

 عید کے دن گھر کے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے درمیان جائز طریقے سے ہنسی اور خوشی کا ماحول بنانا سنت ہے۔ سب لوگ اچھے کپڑے پہنیں۔ عبادت سمجھ کر روزہ نہ رکھیں اور اچھی چیزیں کھائیں پئیں۔عیدین کے دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہوتا ہے۔ 

 عیدگاہ کے لیے نکلتے ہوئے قدرے بلند آواز سے اللہ اکبر کا ورد کرنا مسنون ہے۔ نمازِ عید کی ادائیگی کے ساتھ یہ سلسلہ موقوف ہوجائے گا۔ البتہ نو ذی الحجہ میں نماز فجر کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ میں نمازِ عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا بھی مسنون ہے۔

 تکبیر کے الفاظ یہ ہیں: ’’اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، لا إلٰہ إلا اللّٰہ، اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد‘‘۔

 یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: ’’اللّٰہ اکبر کبیرا، والحمد للّٰہ کثیرا، وسبحان اللّٰہ بکرۃ وأصیلا‘‘۔

 مردوں کو تکبیر کہتے ہوئے آواز بلند رکھنی چاہیے،مگر چیخ چیخ کر عام لوگوں کو تکلیف دینا اور پریشان کرنا جائز نہیں۔ عورتوں کے لیے دھیمی آواز رکھنے کا حکم ہے۔

 عید الاضحی مسلمانوں کی دوسری عید ہے جو اسلامی کیلینڈر کے مطابق بارہویں مہینے یعنی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو پڑتی ہے۔ خاص اس عید سے متعلق چند باتیں یہ ہیں:

 یہ سال کے بہترین دنوں میں سے ایک میں آتی ہے۔ سال کے افضل ترین دن ماہِ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’ان دس دنوں میں نیک عمل اللہ کو جس قدر محبوب ہے وہ کسی دوسرے دنوں میں نہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا: ’’راہِ خدا میں جہاد کرنا بھی؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا:’’راہِ خدا میں جہاد کرنا بھی نہیں، سوائے اس شکل کے کہ کوئی شخص اپنی جان ومال کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکلے اور کچھ بھی واپس نہ لائے۔‘‘[ما من أیام العمل الصالح فیہن أحب إلی اللّٰہ من ہذہ العشر قالوا ولا الجہاد فی سبیل اللّٰہ قال ولا الجہاد فی سبیل اللّٰہ إلا رجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع من ذلک بشییٔ] (صحیح بخاریؒ:۹۲۶۔ سنن ترمذیؒ:۷۵۷)

 یہ حج کی عبادت کا سب سے اہم دن ہوتا ہے۔ اس میں حج کے جملہ اہم اور ضروری اعمال انجام دیے جاتے ہیں جیسے خانۂ کعبہ کا طواف کرنا، قربانی کا جانور ذبح کرنا، جمرۂ عقبہ پر کنکری مارنا وغیرہ۔ 

 حج نہ کرنے والوں کے لیے عید الأضحی کے دن وہ تمام کام مسنون ہیں جو عید الفطر کے دن مسنون ہیں سوائے صدقۂ فطر کی ادائیگی کے۔ فطرہ نکالنا خاص عید الفطر کے موقع کے لیے خاص ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں عید الأضحی کو دوسری خصوصیت حاصل ہے اور وہ ہے تقربِ خداوندی کی نیت اور جذبے سے جانور کی قربانی۔

 قربانی کا جانور اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ ہے جو عید الاضحی کے دن نمازِ عید کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ میں غروبِ آفتاب سے پہلے تک ذبح کیا جاتا ہے۔ارشادِ باری ہے {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}(کوثر،۲)’’پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘متعدد مفسرین نے اس آیت کا مصداق عید الاضحی کے دن کو بتایا ہے۔ گویا نمازسے مراد نمازِ عید ہے اور قربانی سے مراد عید الاضحیٰ کی قربانی ہے۔ 

ویسے اس دن قربانی کرنا سنتِ مؤکدہ ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو اس کی قدرت واستطاعت رکھتے ہوں۔ مسلمان کو اپنی طرف سے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جانور ذبح کرنے تک ناخون، بال اور کھال وغیرہ نہیں کاٹنا چاہیے۔

 قربانی کے جانور کی کچھ شرطیں ہیں:
 ۱-قربانی کے جانور کا بہیمۂ انعام میں سے ہونا ضروری ہے۔اس میں بکرا،گائے اور اونٹ آتے ہیں۔ بکرے کے حکم میں بھیڑ اور دنبہ، اور گائے کے حکم میں بھینس کو رکھا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر مأکول اللحم جانوروں اور پرندوں کی قربانی اس دن کی نسبت سے کرنا جائز نہیں۔ بکرے کی قربانی ایک آدمی اور اس کی فیملی کی طرف سے کافی ہے۔ ایک اونٹ یا ایک گائے میں سات آدمیوں کی طرف سے قربانی ادا ہو سکتی ہے۔

 ۲-جانور کا مطلوبہ عمر تک پہنچنا ضروری ہے۔بکرے کے لیے ایک سال، گائے کے لیے دو سال اور اونٹ کے لیے پانچ سال عمر متعین ہے۔

 ۳-جانور کا عیوبِ ظاہرہ سے خالی ہونا لازم ہے۔اللہ کے نبیﷺ کا ارشاد ہے: ’’چار جانور قربانی کے لائق نہیں ہوتے،کانا جانور جس کی یک چشمی نمایاں ہو، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن صاف نظر آئے،لاغر جانور جسے دبلے پن کی وجہ سے کوئی پسند نہ کرے۔ [أربع لا یجزین فی الأضاحی العوراء البین عورہا والمریضۃ البین مرضہا والعرجاء البین ظلعہا والعجفاء التی لا تنقی] (سنن نسائیؒ:۴۳۷۱۔ سنن ترمذیؒ:۱۴۹۷)

 قربانی کے جانور کا گوشت بیچنا یا قصاب کو اجرت کے طور پر اس کا گوشت دینا حرام ہے۔ مستحب ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں بانٹا جائے۔ ایک حصہ اپنے کھانے کے لیے رکھیں، دوسرا رشتے داروں اور پڑوسیوں میں ہدیہ کریں اور تیسرا غرباء ومساکین میں بانٹ دیں۔ 

آدمی اگر کسی شخص کو قربانی کا ذمہ سونپ دے یا کسی مدرسے یا تنظیم وجمعیت کے حوالے اپنی رقم کر دے جو اس کی طرف سے قربانی کرکے اس کا گوشت محتاجوں میں بانٹ دے، تو یہ جائز ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین


: ٹیگز



التالي
كيا قربانى محرم كے چاند تك جائز ہے؟

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں