بحث وتحقیق

تفصیلات

بَس اللہ کی رحمتوں اور عنایتوں کا آسرا ہے!

 سچ کہا جائے تو زندگی اتنی بھی مشکل نہیں جتنی بنادی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے تو تمام سہولتیں انسان کیلئے فراہم کردی ہیں؛ بلکہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی دنیا کو منظم کر دیا گیا، زمین بچھا دی گئی، آسمان کو بلند کر دیا گیا اور اس پر ستارے و سیارے لگا کر چمک دمک پیدا کردی گئی، کھانے کیلئے وافر مقدار میں اناج، پینے کیلئے پانی اور سانس لینے کیلئے صاف و شفاف ہوا کا بندکر دیا گیا، تو وہیں انسانوں میں اُنس کا مادہ رکھ کر معاشرت اور بھائی چارے کی بھی بنیاد رکھ گئی؛ تاکہ انسان انسان کیلئے معاون و مددگار ہو اور وہ ایک دوسرے کیلئے مفاہمتی اور مخلصانہ کردار ادا کریں، مگر یہی سہولیات اس کیلئے درد کا سامان بن جاتے ہیں، جنہیں زخم پر مرہم بننا تھا وہ زخم کریدنے والے اور اسے کرید کرید کر گہرا بنانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، جن کے کاندھے پر سر رکھ کر غم ہلکا کرنا تھا وہ بھی غموں کا بوجھ بڑھانے والے اور مشکل میں مشکل پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں، زندگی کی آسائشیں گویا زحمت بن جاتی ہیں اور پھر انسان انہیں آسائشوں کے دامن میں دم توڑ دیتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی جانب سے انمول تحفہ ہے، یہ دن، رات، چاند اور سورج، رشتے ناطے ہر چیز انسان کی زندگی کی رعنائیاں بڑھانے اور اس میں چار چاند لگانے کیلئے ہیں، انسان کا ایک دوسرے سے ارتباط، تعلق، قلبی احساس اور لطف و کرم کا معاملہ، معاشرت، اخلاقیات اور درست معاملات غرض ہر چیز لطف زندگی کو دو چند کرنے کیلئے ہے؛ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسان خود انسان کیلئے گڈھے کھودتا ہے، بھائی بھائی کے پیٹھ پر خنجر مارتا ہے، دوست دوست کے ساتھ غداری اور بے وفائی کرتا ہے، بھروسہ اور اعتماد کی رسی کاٹتا ہے، آپسی رسہ کشی، چپقلش، حسد جلن اور بات بات پر منہ چڑھا لینا وغیرہ؛ انہیں چیزوں سے زندگی کی مٹھاس کڑواہٹ میں تبدیل ہوجاتی ہے، ایک خوش و خرم انسان مرجھایا ہوا، بدحواس اور بدمزاج بن جاتا ہے، جن میں حلیف ہونے تھے ان میں حریف دیکھ کر انسان کا دماغ چکرا جاتا ہے، وہ غچہ کھا جاتا ہے اور پھر ایسا شخص زندگی کی کڑواہٹ لئے خطرناک بن جاتا ہے، جن لوگوں کو آپس میں شیر وشکر ہونا چاہیے، ایک دوسرے کی خطا کو درگزر کرتے ہوئے محبت و عنایت برسانا چاہیے وہی لوگ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے میں لگ جاتے ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، اپنا رعب و داب دکھانے اور خود سے نیچا ثابت کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں.
     آپ غور کیجئے! ہماری زندگی کی پریشانیوں کا اصل محور کیا ہے؟ آپ کو بھوک لگے؛ لیکن کھانا نہ ملے، پانی کی پیاس ہو لیکن پانی نہ ملے، روپے پیسے کی حاجت ہو لیکن وہ بھی ندارد ہوں؛ غرض یہ کہ ان میں سے ہر ایک صورت انسان کیلئے خواہ دقتوں کے ساتھ مگر قابل برداشت ہے، وہ ایک دفعہ روئے گا، آنسو بہائے گا، پھر خود کو سمجھا بجھا کر آگے بڑھ جائے گا؛ لیکن دل کو پہنچنے والی چوٹ وہ کاری ضرب ہوتی ہے کہ اس کا گھاؤ نہیں جاتا، اس پر کتنا ہی مرہم لگا لیجئے! کتنا ہی علاج کروا لیجئے مگر اس کا اثر جانا مشکل ہے، اس سے لگاتار خون رستا رہتا ہے، دل آہ و فغاں کرتا ہے، تکالیف کی شدت اور ناقابل برداشت درد سے گزرتا ہوا موت کو یاد کرنے لگتا ہے، مگر یہ کس کی وجہ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ کوئی آسمانی آفت ہوتی ہے؟ کیا یہ کسی اجنبی کی جانب سے کیا گیا رد عمل ہوتا ہے؟ کیا یہ حیوانات یا دیگر مخلوقات کی جانب سے کیا جاتا ہے؟ نہیں / نہیں یہ صرف انسان کے ہاتھوں انجام پاتا ہے، وہی انسان جو دو ہاتھ، پیر، سر اور آنکھ، ناک وغیرہ رکھتا ہے، ایک عدد اس کے سینے میں دل بھی ہوتا ہے لیکن وہ مر چکا ہوتا ہے، وہ انانیت اور گھمنڈ کی سولی پر چڑھ چکا ہوتا ہے، دراصل عام طور پر ہمارے ارد گرد لوگوں سے ہم کچھ توقع پال لیتے ہیں، ہمیں یہ لگنے لگتا ہے کہ وہ ہمارے عزیز، دوست اور محب ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ ہماری شہ رگ کاٹنے پر تلے رہتے ہیں، اپنے عہدے، ناموری اور شخصیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ بار بار یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں، آپ کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے، وہ جب چاہیں آپ سے بھنویں چڑھا سکتے ہیں، آپ کی مجلس گرما سکتے ہیں اور پل بھر میں آپ کے چہرے کی ہنسی چھین سکتے ہیں، بالخصوص اگر آپ کمزور اور معاشرتی اعتبار سے کم حیثیت ہیں، تو پھر آپ جیسوں کیلئے اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے، وہ آپ کو وقت کے حساب سے استعمال کرتے ہیں، ان کی دوستی، محبت سب کچھ دکھاوا، لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ اور نظر کا دھوکا ہے، ان کی زندگی پرت در پرت سازشوں اور مطلب پرستی پر ٹکی ہوتی ہے، مفاد ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، وہ انسان کو ٹیشو پیپر سمجھتے ہیں، جب اور جس طرح چاہا استعمال کر کے پھینک دینا ہی انہیں گوارا ہوتا ہے، وہ انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی بہانہ ملے، کوئی موقع ان کے ہاتھ لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بھڑاس نکال لیں، یہی لوگ انسانی جذبات کو کھلواڑ بنا دیتے ہیں، ان کی آنکھوں کو وہی لوگ جچتے ہیں جو ان کے موافق ہوں، اگر ان کی مرضی اور منشا کے خلاف کسی نے قدم اٹھایا تو اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، خیر! یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ہے، اسی کی مرضی کار فرما ہے، چنانچہ ہر حال میں جینا اور اپنا سارا ساز و سامان اسی کے بھروسے رکھ دینا ہی عبدیت اور بندگی ہے؛ کیونکہ سوائے اللہ کے اور کوئی سہارا نہیں، اسی کا بھروسہ ہے، اسی کی رحمتوں اور عنایتوں کا آسرا ہے.

     محمد صابر حسین ندوی


: ٹیگز



التالي
ہندوستان کی تیسری معیاری یونیورسٹی ”جامعہ ملیہ اسلامیہ“

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں