بحث وتحقیق

تفصیلات

ہندوستان کی تیسری معیاری یونیورسٹی ”جامعہ ملیہ اسلامیہ“

15 جولائی 2022 جمعہ کے روز ہندوستان کی مرکزی وزارتِ تعلیم کے ادارہ NIRF نے ملک کی سینٹرل یونیورسٹیوں کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کا نام تیسرے نمبر پر ہے۔ یہی وہ جامعہ ہے جسے 2019 کے اواخر اور 2020 کی ابتدا میں بعض شر پسند عناصر نے بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ مگر قابل مبارک باد ہیں جامعہ کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ جنہوں نے ملک مخالف طاقتوں کی گولیوں کا جواب گولی سے نہ دے کر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر دیا۔ ملک میں مختلف درپیش مسائل کا مقابلہ ہم تعلیم حاصل کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ 
 
1920 میں مہاتما گاندھی کی سرپرستی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک سے قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ آج دنیا کی اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، جس کے قیام اور اس کی آبیاری کے لئے حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ، مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب اور دیگر اکابرین کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک تعلیمی درسگاہ نہیں بلکہ مختلف علوم وفنون کا ایسا علمی گہوارہ ہے جسے ہمارے اسلاف نے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا۔ اِس ادارہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے بانیان ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لینے والے ہیں۔ جامعہ کا قیام اُس وقت اور اُن حالات میں عمل میں آیا جب آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔ جامعہ کے اکابرین آزادی کی تحریک سے براہِ راست جڑے ہوئے تھے۔ غرضیکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہندوستان کی جنگ آزادی کے بطن سے ہوا ہے۔ اسی وجہ سے جامعہ کے خمیر میں سیکولرازم، آزادی، حب الوطنی، روشن خیالی اور رواداری پہلے ہی دن سے موجود ہے۔ جامعہ کے قیام کا مقصد جہاں اقلیتوں میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا ہے وہیں اردو زبان کا فروغ بھی اہم مقصد ہے، اسی وجہ سے ابتدا ہی سے بڑے بڑے اردو شعراء وادباء جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زیارت کیا کرتے تھے۔
 
اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ پوری دنیا میں تعلیمی میدان میں خاص شناحت رکھتی ہے۔ جامعہ سے تعلیم حاصل کرکے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد اندرون و بیرون ملک بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہوکر جہاں برسر روزگار ہیں وہیں قوم وملت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دنیا کی عظیم شخصیات کو جامعہ نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا ہے۔ جامعہ کے متعدد شعبوں بالخصوص انجینئرنگ کالج، ٹیچرس ٹریننگ کالج، ماس کمیونیکیشن سینٹر، سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ، شعبہ عربی، شعبہ اردو وغیرہ کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جامعہ کے طلبہ دنیا کے چپہ چپہ پر مختلف میدانوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام روشن کررہے ہیں۔
 
جناب سرسید احمد خان صاحب نے علی گڑھ میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی تھی، لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرسید احمد خان صاحب کو انگریزوں سے قربت حاصل تھی۔ اس لئے مجاہدین آزادی کو اس پر تشویش تھی، لہٰذا ہندوستان کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں نے بھی علی گڑھ میں ہی ایک تعلیمی ادارہ ”جامعہ ملیہ اسلامیہ“ کی بنیاد 29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ کالج کی جامع مسجد میں رکھی۔ 1925 میں جامعہ دہلی کے قرول باغ کے کرایہ کے مکانوں میں منتقل ہوئی، جہاں جامعہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قریب تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بند کردیا جائے مگر منتسبینِ جامعہ کی ایک ٹیم آگے بڑھی اور اپنی خدمات پیش کرکے انہوں نے جامعہ کو نہ صرف مشکل وقت سے باہر نکالا بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ 1935 میں جامعہ اوکھلا میں منتقل ہوئی جہاں محبين جامعہ نے زمینیں خرید خرید کر جامعہ کے لئے وقف کیں۔ 1962 میں جامعہ کو یونیورسٹی اور 26 دسمبر 1988 کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ جامعہ کے نام سے اسلامیہ کا لفظ نکالنے کی بھی کوشش ہوئی مگر محبین جامعہ خاص کر مہاتما گاندھی نے اس کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ غرضیکہ اکابرین ملت نے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سینچا ہے جو آج الحمد للہ روشن چراغ کے مانند پورے ملک کو روشن کررہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی ایسی عظیم سرکاری یونیورسٹی ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
جامعہ زندہ آباد
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی


: ٹیگز



السابق
بَس اللہ کی رحمتوں اور عنایتوں کا آسرا ہے!

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں