بحث وتحقیق

تفصیلات

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!

انسان درد و تکالیف کا پتلا ہے، اس کی خمیر میں کوفت، الجھن اور مشقت رکھ دی گئی ہے، انسان جب صلب پدر سے سفر کرنا شروع کرتا ہے اس وقت سے لیکر آخری سانس تک ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ آہ و زاری اور غم زندگی سے چھٹکارا پاتا ہو، فکر و تشویش اس کی گتھی میں رکھ دی گئی ہے، بچپن، جوانی، کہولت، بڑھاپا اور موت انسان کو ہمیشہ جھنجھوڑتے رہتے ہیں؛ بالخصوص جب وہ مکلف بن جاتا ہے تو اس کے دماغ میں معاش و معاشرت اور گھر و گھریلو چیزیں یوں سوار ہوجاتی ہیں کہ وہ دنیا بھر میں بھٹکتا پھرتا ہے، در در کی چوٹ کھاتا ہے، گرتا پڑتا کہیں یہاں تو کہیں وہاں سرگرداں رہتا ہے، امیدوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ انسان کی کمر جھکا دیتے ہیں، اسے ایک پَل کی راحت نصیب نہیں ہوتی، یہ ممکن ہے کہ بہت سے خوش نصیبوں میں سے ہوں اور انہیں زندگی وہ تکان نہ دیتی ہو جس سے کوئی دوسرا دوچار ہو؛ لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی سرے سے ہی آہ و فغاں کی چپیٹ سے دور ہو، نوعیتیں یقیناً مختلف ہوسکتی ہیں، مگر مشقتوں سے محرومی کا کوئی سوال نہیں؛ حتی کہ ظاہری عیش و عشرت میں رہنے والا شخص بھی شب کی تاریکی میں آنسو بہاتا ہے یا نیم خوابی سے دوچار رہتا ہے، وہ بَس چاہتا ہے کہ چند گھنٹے سو جائے اور سکون کی سانس لے؛ لیکن اسے میسر نہیں، ساتھ ہی وہ بد نصیب بھی ہیں جو دن بھر محنت کرتے ہیں، خود کو تھکاتے ہیں اور دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، وہ رات کو جب سوتے ہیں تو صبح کی کرنیں ہی اسے جگاتی ہیں؛ مگر بسااوقات وہ نان شبینہ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، انہیں محنت و جہد مسلسل کے بعد ایک دانا نصیب نہیں ہوتا، وہ خالی ہاتھ گھر جاتے ہیں، بیوی بچوں کو پیٹ پر پتھر رکھنے پر مجبور پاتے ہیں، یہ پتھر ان کے دل و دماغ میں پڑ جاتا ہے اور انسان اس غم میں رنجور ہو کر بکھر جاتا ہے، اس دنیا میں سب کچھ ہونا آسان ہے؛ لیکن انسان ہونا آسان نہیں، ایک شخص جب پیدا ہوتا ہے تو دوسرے لوگ خوشی و جشن مناتے ہیں؛ مگر وہی جانتا ہے کہ اس نے کس محنت و کوشش کے بعد یہ زندگی پائی ہے، انسان لاکھ تمنا کرے لیکن وہ کسی کو بھی اس دور کا درد بتا نہیں سکتا اور نہ کوئی سمجھ سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی بھر کا تعب آشنا بھی اپنا غم نہیں بانٹ سکتا، نہ کسی کو سمجھا جاسکتا ہے؛ حتی کہ وہ اپنے رب و پالنہار سے مل لے، قرآن مجید نے انسان کے متعلق خود کہا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ۔ (بلد:٤) ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔ “-- سورة الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ۔ (انشقاق:٦) ” اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے “۔
      مفسر قرآن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم اپنی تفسیر بیان القرآن میں سورہ بلد کی مذکورہ آیت پر جامع گفتگو کی ہے، مولانا رقمطراز ہیں: "انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کوفت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان ۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کیلئے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے ۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب:
قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں 
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں !
بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ” ملاقات “ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ” دنیا “ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا :{ وَیَصْلٰی سَعِیْرًا ۔ } الانشقاق اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے 
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟ (دیکھئے: بیان القرآن)

    محمد صابر حسین ندوی


: ٹیگز



التالي
وما ینطق عن الھوی سے کیا مراد ہے؟

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں