بحث وتحقیق

تفصیلات

افغانستان: جنگی جرائم کی تفتیش 16 سال بعد بھی ‘ابتدائی مراحل’ میں

غیر جانبدار ادارے افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک کی حال ہی میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق بین االاقوامی
فوجداری عدالت نے 16 سال قبل افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم کا جائزہ لینا رشوع کیا تھا لیکن یہ جائزہ ابھی
تک ‘ابتدائی مراحل’ میں ہے

افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بین االاقوامی فوجداری عدالت )انٹرنیشنل کرمنل کورٹ یا

آئی سی سی( اس معاملے پر 16 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ‘ابتدائی مراحل’ میں ہے، جس کی ایک وجہ افغان حکومت کو تسلیم نہکرنے کی بدولت پیدا ہونے واال سفارتی تعطل ہے۔ پانچ اپریل 2007 کی اس تصویر میں افغان دارالحکومت کابل کے مضافات میں نیٹو افواج کے ایک اہلکار کو بکرت بند گاڑی پر گشت کرتے دیکھا جا سکتا ہے)فائل فوٹو: اے ایف پی( جرمنی اور افغانستان میں کام کرنے والے غیر جانبدار ادارے افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک کی حال ہی میں جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق بین االاقوامی فوجداری عدالت نے 16 سال قبل افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم کا جائزہ لینا رشوع کیا تھا لیکن یہ جائزہ ابھی تک ‘ابتدائی مراحل’ میں ہے۔ دس ماہ قبل آئی سی سی کے وکیل استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ عدالت اس تفتیش کو جلد مکمل کرنے کی منظوری دے۔ رپورٹ کے مطابق بین االاقوامی عدالت کے جج اس مخمصے میں ہیں کہ اس وقت افغانستان کی منائندگی کون کر رہا ہے اور کیا سابقہ افغان حکومت کی جانب سے جاری کردہ درخواست، جس میں اس تفتیش کو موخر کرنے کا کہا گیا تھا، ابھی تک قانونی حیثیت رکھتی ہے؟ سابقہ انتظامیہ نے موقف اپنایا تھا کہ ملک کے اندر ان واقعات کے حوالے سے اندرونی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اگست 2021 سے افغانستان میں طالبان کی حکومت ‘امارات اسالمی’ قائم ہے، جسے عاملی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا لیکن دنیا بھر کے کئی ماملک میں ابھی تک افغانستان کی منائندگی وہی سفارتی عملہ کر رہا ہے جو سابقہ حکومت نے تعینات کیا تھا۔ بین االاقوامی فوجداری عدالت کے استغاثہکا موقف رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بین االاقوامی فوجداری عدالت کے استغاثہ کریم خان اگست 2021 میں ارشف غنی حکومت کی اس درخواست پر غور کر رہے تھے جو انہوں نے اس تفتیش کو موخر کرنے کے لیے دائر کی تھی لیکن اسی دوران ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ستمرب 2021 تک ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے ابھی تک اس بارے میں ‘حتمی فیصلہ’ نہیں کیا کہ وہ ارشف غنی انتظامیہ کے اس موقف کو تسلیم کریں گے کہ افغانستان میں اندرونی طور پر ان واقعات کی تحقیق کی جا رہی تھی۔ کریم خان کے مطابق اس حوالے سے افغانستان کی ریاست سے مزید شواہد کی رضورت ہے تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ افغان انتظامیہ نے اس حوالے سے کافی معلومات فراہم کی ہیں۔ ابھی تک نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانہ آئی سی سی اور افغانستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ افغانستان اور بین االاقوامی فوجداری عدالت کے درمیان بامعنی رابطے جو 2016 میں قائم ہوئے تھے، تب سے اب تک رابطوں کا کام نیدرلینڈز میں موجود یہ سفارت خانہ ہی رسانجام دیتا رہا ہے۔ افغان سفارت خانہ اور بین االاقوامی فوجداری عدالت دونوں ہی دی ہیگ شہر میں واقع ہیں۔ سابقہ حکومت سے کیے گئے معاہدے کے مطابق عدالت اسی سفارت خانے کے ذریعے کابل سے رابطہ رکھے گی۔ تین ستمرب 2021 کو عدالت کے استغاثہ نے تفتیش کے آغاز سے متعلق درخواست کے حوالے سے افغانستان سفارت خانے کو ہی آگاہ کیا تھا۔ بین االاقوامی فوجداری عدالت میں کی جانے والی تفتیش میں پری ٹرائل چیمرب کے ججز اہم کردار ادا کرتے ہیں، جس میں آئی سی سی استغاثہ کو کسی تحقیق کو جاری رکھنے کی منظوری دینا بھی شامل ہے۔ اپریل 2019 میں پری چیمرب ٹرائل کے ججز نے سابق استغاثہ کی اس درخواست کو مسرتد کر دیا تھا جس میں انہوں نے افغان تنازعے میں مبینہ جنگی جرائم کا ذمہ دار افغان فورسز، طالبان، حقانی نیٹ ورک، امریکی فوج اور سی آئی کو قرار دیا تھا تاہم مارچ 2020 میں اپیل چیمرب نے پری چیمرب ٹرائل ججز کے اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا لیکن تفتیش رشوع ہونے سے قبل ہی صابق صدر ارشف غنی کی حکومت نے اس تفتیش کو موخر کرنے کی درخواست دائر کر دی تھی۔ سابق افغان حکومت نے یہ درخواست روم سٹیچو کی شق 18( دو( کے تحت دائر کی تھی۔ سابق افغان حکومت کا موقف: ارشف غنی انتظامیہ نے موقف اپنایا تھا کہ اس معاملے میں عدالت کی مداخلت کی کوئی رضورت نہیں ہے کیونکہ انسانیت کے خالف ان جنگی جرائم کی تحقیق افغانستان میں اندرونی طور پر کی جا رہی تھی۔ بین االاقوامی فوجداری عدالت کے ضوابط کے مطابق ان جرائم کے خالف تحقیق کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ ریاست کی ہے۔ افغان انتظامیہ نے اپنی درخواست کی حامیت میں ہزاروں صفحات کی دستاویزات پیش کی تھیں، جو دری اور پشتو زبان میں تھیں۔ ان دستاویزات میں 180 ایسے واقعات کا ذکر تھا، جن کے حوالے سے تفتیش کرنے کا دعوٰی کیا گیا تھا۔ گذشتہ سال حکومت میں آنے کے بعد طالبان نے بین االاقوامی عدالت سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ گو کہ نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو غیر رسکاری طور پر اس بات سے مطلع کر چکا ہے کہ استغاثہ نے ان واقعات کی تفتیش کو دوبارہ رشوع کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔


: ٹیگز



بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں