البحث

التفاصيل

"جنگ اور ایمرجنسی کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق" کے زیر عنوان منعقد کانفرنس میں "خاندانی حقوق کے لیے عالمی اتحاد" کے قیام کا اعلان ۔اتحادِ عالمی کی فعال مشارکت.

الرابط المختصر :

"جنگ  اور ایمرجنسی کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق" کے زیر عنوان منعقد کانفرنس میں "خاندانی حقوق کے لیے عالمی اتحاد" کے قیام کا اعلان ۔اتحادِ عالمی کی فعال مشارکت. 

 

متعدد اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے، مسلم اسکالرز کی بین الاقوامی یونین کی فیملی کمیٹی نے استنبول میں "جنگ اور ایمرجینسی کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق کانفرنس" کا انعقاد کیا۔

 

کمیٹی نے شرکاء کے تعاون سے "جنگوں اور بحرانوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق اعلامیہ " جاری کیا اور "خاندان کے تحفظ کے لیے عالمی اتحاد" کے قیام کا اعلان کیا۔

 

انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز کی فیملی کمیٹی نے خواتین اور خاندانی مسائل سے متعلق  اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے "جنگوں اور بحرانوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق کے زیر عنوان منعقد کانفرنس" میں فعال شرکت کی ،اس کانفرنس کا انعقاد استنبول میں 12 نومبر کو عمل میں آیا. اس کا عنوان یہ تھا : "غزہ کے بچے اور عورتیں دنیا کے سامنے فریاد کر رہی ہیں۔"

 اس کانفرنس کے اہم ترین مقاصد یہ تھے 

 

1. "جنگوں اور بحرانوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق" پر ایک اعلامیہ جاری کرنا۔

 

2. زندگی کے تحفظ کے لیے شرعی نقطہ نظر کی وضاحت، اور کمزوروں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے تحفظ سے متعلق اس کی دفعات میں اس کی ترجیح اور امتیاز، اور قانون سازی میں ان کے تحفظ کی رعایت ۔

 

3. انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی طرف توجہ مبذول کرانا جن کا سامنا خاندانوں کو کرنا پڑتا ہے - خاص طور پر خواتین اور بچوں کو - جنگوں اور بحرانوں کے دوران پیش آمدہ حالات میں کرنا پڑتا ہے خاص طور پر کمزور لوگوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں یہ بدتر حالات سامنے آتے ہیں۔

 

4. عورتوں اور بچوں کے خلاف صہیونی دشمن کے جرائم کو بے نقاب کرنا، (فلسطین پر اس کے قبضے سے لے کر غزہ پر موجودہ جارحیت تک) ۔

 

5. خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کنونشنز کی خامیوں کو اجاگر کرنا، خواتین اور بچوں کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیار، اور فلسطین میں خواتین اور بچوں کے تحفظ میں ان کی نااہلی کو ظاہر کرنا۔

مناقشہ :

 

یونین کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن اور  اور شریعہ ایجوکیشن اینڈ سرٹیفکیٹ کمیٹی کے چیئرمین  ڈاکٹر وصفی ابو زید نے افتتاحی تقریر کی، جب کہ  بورڈ کے رکن یونین کے معتمد اور شامی عرب جمہوریہ کے مفتی شیخ اسامہ الرفاعی نے عالم اسلام کے مفتیان کرام کے نقطہ نظر کو بیان کیا 

 

 محترم شیخ ڈاکٹر احمد نے دستاویز کے اجراء میں شرکاء  کے خیالات کو پیش کیا اور اورینٹل اسٹڈیز اینڈ یروشلم اسٹڈیز کی پروفیسر ناہید عمر اسدہ اور شہید مازن  کی اہلیہ نے بھی فلسطینی خواتین کی طرف سے نقطہ نظر رکھا. 

 

فلسطین اسکالرز ایسوسی ایشن کے پیغام کو صباح الدین زیم یونیورسٹی میں فقہ اور اصول فقہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر  اور فلسطین اسکالرز ایسوسی ایشن میں معراج سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر محمد حمام ملحم نے پیش کیا. 

 

خواتین اور بچوں کے حقوق:

 

کانفرنس کی کارروائی پر ایک سمپوزیم میں بحث کی گئی جس کا عنوان تھا؛ "شریعت اور بین الاقوامی معاہدوں کے درمیان جنگوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق،"  سمپوزیم کی نظامت ڈاکٹر  محمد ایمن الجمال نے کی۔موصوف استنبول کی فتح سلطان محمد یونیورسٹی میں عصری مسائل کے پروفیسر ہیں۔

 

سمپوزیم کے دوران تین تحقیقی مقالے پیش کیے گئے :

 

- پہلا مقالہ: "فلسطینی خواتین اور زیر قبضہ. جیل میں بند بچوں کے مصائب" ایک مطالعہ،کے زیر عنوان تھا جسے  فلسطینی خواتین کے مسائل کے ماہر اور محقق، اور الاقصیٰ ویمن فاؤنڈیشن کی بین الاقوامی رابطہ کار۔ڈاکٹر  تغرید السیداوی نے پیش کیا۔

 

دوسرا مقالہ: "جنگوں کے دوران خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی پروگراموں کا پوشیدہ ایجنڈا" کے عنوان سے تھا، جسے  انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی فیملی کمیٹی کی سربراہ، ڈاکٹر کیمیلیا ہیلمی،نے پیش کیا. محترمہ بین الاقوامی کنونشنز اور خاندان پر ان کے اثرات کے شعبے میں مہارت رکھتی ہے۔

 

- تیسرا مقالہ: بعنوان "جنگوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق کے کچھ مسائل کی فقہی بنیادیں ،"  جسے ڈاکٹراسراء المعاضیدی، نے پیش کیا۔محترمہ فقہ اور اصول فقہ کی ماہر ہیں ۔

 

کانفرنس کے اختتام پر انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر محترم ڈاکٹر عبدالحئی یوسف نے "جنگوں اور بحرانوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق اعلامیہ " شرکاء کو پڑھ کر سنایا . جس کے نتیجے میں شرکاء نے بھی "خاندان کے تحفظ کے لیے عالمی اتحاد" کا اعلان کیا۔

 

   "جنگوں اور بحرانوں کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق اعلامیہ /منشور " کا متن درج ذیل ہے۔

 

 

"جنگوں اور بحرانوں میں خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق چارٹر"

 

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں؛ جس نے فرمایا: (اور جو ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لے اس پر کوئی الزام نہیں ہے -  اور درود و سلام ہو اس ذات پر جس نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا اور فرمایا: (یقیناً میں تمہیں کمزوروں کے حقوق: یعنی یتیم اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں سخت تاکید کرتا ہوں ) اما بعد :

 

فلسطین کے خلاف ظالم قابض صیہونیوں کی وحشیانہ جارحیت کی روشنی میں، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اور موجودہ وقت میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری قابل فخر غزہ  کے خلاف اسرائیلی جارحیت، اور عورتوں کے حقوق  کے تحفظ ، انہیں بااختیار بنانے، اور بچوں کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں کی سکوت اور خاموشی کے مد نظر ۔

 ان تمام حملوں میں ان تنظیموں کی خاموشی کے مدنظر جن کا نشانہ  شام، فلسطین، ایغور اور دیگر خطوں مسلمان خواتین، اور مسلمان بچے ہیں 

اس کے علاوہ، ایسے سنگین حالات میں محض ایسے بین الاقوامی معاہدے اور اعلانات جاری کیے گئے ہیں جو جنگوں اور بحرانوں میں خواتین اور بچوں کے حقوق کا ذکر کرتے ہیں، لیکن وہ نظریاتی طور پر بچوں اور عورتوں کے حقوق کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتے ہیں، اور عملی اطلاق میں دوغلے پن کو ظاہر کرتے ہیں۔ شرکاء نے اسے اپنا فرض سمجھا کہ وہ چارٹر کے ذریعہ اسلامی قانون کی ترجیح کو واضح کریں اور ان حقوق کو قائم کریں جو ہمارے دین اور ہمارے ثقافتی ورثے میں موجود ہیں، لہذا درج ذیل نکات اتفاق رائے سے طے کیے جاتے ہیں :

 

اوّل: اپنی عزت، اپنی زمین اور مال کی حفاظت کرنا ایک لازمی شرعی فریضہ ہے، جو دفاع کی صلاحیت رکھنے والے مردوں اور عورتوں پر عائد ہوتا ہے، جو ان چیزوں کے دفاع کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے، اور بچوں میں سے جو بھی لڑنے کی استطاعت رکھتا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ وہ ظالموں کے ظلم کو روکنے کے لیے جنگ میں حصہ لے ۔ تو اسے اس سے روکا نہیں جائے گا۔

 

دوم : دشمنوں کے نابالغ بچوں اور غیر جنگجو عورتوں کو قتل کرنا حرام ہے، جہاں تک  جنگجو خواتین کا تعلق ہے، جنگ کے دوران ان کے ساتھ بھی مرد جنگجوؤں جیسا سلوک کیا جائے گا ۔ درحقیقت خواتین جنگجوؤں کو گرفتار کرنا درست ہے:جو خواتین فی الوقت  مسلح ہوں، یا قبل میں مسلح رہ چکی ہوں یا جو کسی دوسرے کی زمین پر قابض ہوں وہ جنگجو متصور ہوں گی ۔

 

سوم : حد بلوغ سے کمتر عورتوں اور بچوں کو "جارحانہ کارروائیوں" میں شامل کرنا درست نہیں ہے، سوائے ضرورت کے اوقات میں ، کیونکہ اس سے انہیں نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے اور ان کے خاندانوں کو بھی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں ۔

 

سوم: اللہ تعالیٰ نے قیدی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اسے کھانا کھلانے کا حکم دیا ہے، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کی توقیر اور بچوں پر رحم کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے رہائی کی صورت میں خواتین کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہیں اور ان جیسے کمزوروں کو، اور ان میں سے غیر جنگجوؤں کو حالت جنگ کے خاتمے کے بعد حراست میں نہیں لینا چاہئے، اور انہیں قید سے رہائی کرنے اور کروانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔

 

پنجم: بچوں کو گرفتار کرناجائز نہیں، اگر وہ میدان جنگ میں پائے جائیں تو انہیں مناسب جگہ پر پناہ دی جائے اور تیز ترین اور محفوظ راستے سے ان کے اہل خانہ تک انھیں پہنچایا جائے، اگر وہ خاندان کے ساتھ گرفتار ہوں  تو انہیں خاندان کے افراد سے جدا کرنا جائز نہیں ہے۔ بچے کا حق ہے کہ اگر وہ ماں باپ کے ساتھ قید ہوجائیں تو بچوں کو اپنی ماں یا باپ کے ساتھ رہنے دیا جائے. ماں باپ سے بچوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا. 

 

ششم : خواتین قیدیوں کو ان کے مذہبی حقوق دئیے جائیں، خاص طور پر مسلمان خواتین جو حجاب، عدم اختلاط اور پاکیزگی طہارت کے احکام کی پابندی کرتی ہیں، قیدیوں خصوصاً خواتین اور بچوں کی عزت پر حملہ کرنا یا انہیں دھمکیاں دینا درست نہیں ہے۔

 

ہفتم: جنگ میں بچوں اور عورتوں کو حتیٰ کہ دشمن کے بچوں اور عورتوں کو ڈھال بنا ناحرام ہے اور جن عمارتوں میں عورتیں اور بچے  رہتے ہیں ان پر بمباری کرنا  درست نہیں ہے. 

ایساکرناشریعت کی نظر میں ایک جرم ہے، اور تمام مسلمانوں کو فوری طور پر بچوں کو قتل کرنے والی ریاست کا احتساب کرنا چاہیے۔

 

ہشتم: لوگوں کو ان کے شہروں اور دیہاتوں اور گاؤں سے نکالنا اور  ان کا محاصرہ کرنا قطعاً ناجائز ہے، ان سے پانی کے ذرائع اور مواصلات کو منقطع کرنا اور ان کو خوراک اور ادویات سے محروم کرنا ایسے جرائم ہیں جن کے خلاف پوری امت کو کھڑا ہونا چاہیے۔  اور جو بھی ایسے جرائم  میں مدد کرتا ہے وہ مجرم کا شریک جرم ہے ۔

 

نہم: جان بوجھ کر بچوں اور غیر جنگجو خواتین کو نقصان پہنچانا جائز نہیں اور نہ ہی ان عمارتوں پر بمباری کرنا درست جن میں وہ رہتی ہیں، یہ ایسے جرائم ہیں جو بدترین ہیں. امت مسلمہ کا فرض ہے کہ انہیں نقصان پہنچانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے ۔تاکہ جارح کی جارحیت کو روکا جا سکے اور اس کا ہر طرح سے جواب دیا جاسکے ۔

 

آخر میں: نسل انسانی کی حفاظت کا مضبوط ذریعہ خاندان ہے، خاندان کی ہر ممکن ذرائع سے حفاظت کرنا ایک شرعی اور فطری فریضہ ہے، جب کہ بچوں اور عورتوں پر حملہ کرنا نسب کو منقطع کرنا، اولاد کی تباہی اور زمین پر فساد پھیلانے کا ذریعہ ہے. خاندان کا تحفظ اور دفاع پوری امت پر کا فرض ہے۔

 

اس لیے اس چارٹر پر دستخط کرنے والے( افراد، جہات اور تنظیمیں) خاندان کے تحفظ کے لیے عالمی اتحاد کے قیام کا اعلان کرتے ہیں، اور دنیا کے تمام شرفا معززین  سے اس میں شامل ہونے اور ساتھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔تاکہ خاندان کے خلاف مسلسل جارحیت کا خاتمہ کیا جاسکے. 

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

 


: الأوسمة



التالي
خلال زيارة أوزبكستان.. القره داغي يجتمع مع مفتي البلاد ويبحثان سبل التعاون وتعزيز التعاون الديني والثقافي

مواضيع مرتبطة

البحث في الموقع

فروع الاتحاد


عرض الفروع