شکل وصورت ،قدوقامت، رنگ روپ ،زبان وبیان ،نسل اور ماحول کے اختلاف کی طرح، عقل و فکر، طبیعت و رجحانات ،کا اختلاف بھی ایک حقیقت ہے، جس کی وجہ سے علمی، فقہی اجتہادات وتحقیقات میں بھی اختلافات رونما ہو جاتے ہیں، اور یہ ایک فطری امر ہے، جس کا ایک صاحب عقل وشعور انکار نہیں کرسکتا ،اورنہ ہی ان اختلافات کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ان سے بچا جا سکتا ہے، اس لئےکہ یہ اختلافات قوموں اور ملتوں کے شعور اور انکی دیانت کے آئینہ دار ہیں ،اور انکی علمی زندگی کی بقاودوام کے غماز ہیں۔
برصغیر کے مشہور عالم حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب دیوبندی اپنے ایک رسالہ "وحدتِ امت" میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ یہ نظریات کے اختلافات مٹ جائيں ،تو یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہو سکتی،وجہ اسکی یہ ہے کہ نظریاتی اختلافات کا مٹ جانا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے ، یا تو سب بے عقل ہو جائيں، یابددیانت.!!
یہی وجہ ہے کہ انبیاء جیسی پاکیزہ ہستیوں کے درمیان علمی اور نظری اختلاف رونما ہوا، اور قرآن نے بڑے اہتمام کے ساتھ باپ بیٹے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے اختلاف کو بیان کیا۔
انبیاء و رسل کے بعد جو گروہ سب سے زیادہ اعلی و ارفع ہے وہ صحابہ کرام کا ہے،اور ان میں بھی باہم بے شمار مسائل میں اختلاف رہا ،یہی حال تابعین عظام اور ائمہ کرام کابھی ہے ،جو کتاب و سنت کے گہرے علم وفہم کے ساتھ انتہائی مخلص اور نفسانیت سے کوسوں دور تھے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہےکہ ان حضرات کے مابین جو اختلافات علمی اور فقہی میدانوں میں ہوئے ان کی حقیقت اور اسباب آخر کیا تھے؟
جہاں تک تعلق ہے ان اختلافات کی حقیقت کا تو وہ بجز اسکے کچھ بھی نہیں کہ تمام فقہاء امت اور ائمہ مذھب اس کے لئے کوشاں رہتے تھے کہ کونسا کام اور کونسا طریقہ سب سے افضل اور بہتر ہے،سبھوں کی یہی کوشش تھی کہ ایک اسلامی عمل بہتر طریقہ سے یعنی سنت کے مطابق ادا ہو۔ کبھی کسی نے ان اختلافات کو آپسی رنجشوں کا ذریعہ نہیں بنایا، اور نہ ہی باہمی ناچاقیوں اور نااتفاقیوں کا! اس لئے کہ ان کے یہاں قرآن و حدیث کا گہرا فہم پایا جاتا تھا، اور وہ ان اختلافات کو فکرو نظر اور ذہنی صلاحیتوں کے اختلاف کا ثمرہ سمجھتے تھے۔ انسانی فطرت سے واقفیت اور قرآن و حدیث کے صاف وشفاف فہم کے باعث ان میں آپسی محبت عام تھی، اور دل صاف تھے،اور ان اختلافات سے انکے دل میں اپنے مقابل رائے رکھنے والے کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی تھی۔
یوں ان حضرات کے مابین جو اختلافات ہوئے وہ دو طرح کے تھے۔ ایک اختلاف "اختلاف ادلہ" ، اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی بناء دلیل و نظر پر ہو، اور یہ اختلاف ظاہر ہے ہمیشہ رہے گا۔
اور دوسرا اختلاف "اختلاف ازمنہ" ، اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو نکات اور دلائل پر مبنی نہ ہو بلکہ زمانہ،حالات اور عرف کی رعایت میں کسی فقیہ نے کوئی راۓ قائم کی ہو اور جب حالات بدل گئے ہوں اور عرف میں تبدیلی آگئی ہو تو دوسرے نے بدلتے ہوۓ حالات کو پیش نظر رکھ کر دوسرا حکم دیا ہو، متاخرین کی کتابوں میں بہ کثرت اس کے اشارات ملتے ہیں۔
بات کی مزید وضاحت کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء امت کے محتاط طرز عمل کی چند مثالیں پیش کی جائیں، جن سے ان حضرات کی احتیاط اور ان کے جذبۂ قبول حق کو مبرہن کیا جا سکے۔
امام ابو حنیفہ کی مثال لیجئے، جو اپنے زمانے میں دنیائے علم و فقہ کے بادشاہ تھے ،اور معاصر تعبیر کے مطابق جو اسلامی تاریخ کی پہلی فقہ اکیڈمی کے بانی تھے، انکا یہ حال تھا کہ وہ جب بھی فتویٰ دیتے ،تو یہ فرماتے کہ یہ نعمان بن ثابت کی رائے ہے، اور یہ میری جستجو و تحقیق کا ثمر ہے، اگر کوئی شخص اس سے بھی زیادہ اقرب رائے مستنبط کرے تو وہ زیادہ صحیح اور درست ہو سکتی ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا ہر شخص کی بات مانی بھی جا سکتی ہے اور ترک بھی کی جا سکتی ہے ۔
اسی طرح ان حضرات کے مابین جو اختلافات علمی،فقہی اور اجتہادی میدانوں میں ہوئے ان کے مندرجہ ذیل اسباب تھے ۔
(1) کبھی کسی فقیہ تک کوئی حدیث پہنچی اور دوسرے فقیہ تک نہ پہنچی لہذا فقہی آراء مختلف ہو گئیں۔
(2) کبھی اس لیے اختلاف ہوا کہ رسول اللہ کے قول و عمل کو کسی نے وجوب پر محمول کیا، کسی نے استحباب پر، کسی نے محض اباحت پر ۔
(3) کبھی راویوں کو واقعہ کی تعبیر میں وہم ہوا، مثلا رسول اللہ نے زندگی میں ایک ہی حج کیا، اسکو کسی راوی نے تمتع، کسی نے قران قرار دیا، اور کسی نے افراد کو افضل کہا ۔
(4) علامات اور اسباب کے تعین میں اختلاف۔
استنجاء کے وقت استقبال قبلہ سے ممانعت کی علت امام ابوحنیفہ نے کچھ سمجھی، اور امام شافعی نے کچھ، لہذا فقہی آراء مختلف ہو گئیں۔
(5)کسی لفظ مشترک کے معنوی تعین میں اختلاف۔
اسی لیے قرآن میں وارد لفظ "قروء" کا مفہوم احناف کے یہاں کچھ ہے، شوافع کے یہاں کچھ !
(6)کسی حدیث کو قبول کرنے اور نہ کرنے میں اصولی اختلاف۔
مثلا امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مرسل روایات بھی معتبر ہیں، اور امام شافعی اور احمد کے یہاں مرسل روایات مقبول نہیں۔ اسی طرح امام شافعی کے نزدیک صرف سعید بن مسیب جیسی مضبوط شخصیت کے مراسیل مقبول ہیں ۔
یہ وہ اسباب تھے جن کی بناء پر ان کے یہاں علمی اور نظریاتی اختلافات ہوئے۔ اب فقہ اسلامی کے طالب علموں اور فقہ و فتاویٰ کے ذریعہ امت کی رہنمائی کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ فقہی مسائل کی تحقیق اور تشریح میں ان اختلافات کو مد نظر رکھیں، تاکہ امت میں ایک سنجیدہ اور پر سکون علمی ماحول بنے، جس ماحول میں فقہ اسلامی کی صحیح نشو نما ہو اور اس کے ذریعہ سے فقہ اسلامی کے اصل مزاج تک رسائی ہو، اور عوام الناس کو مسائل کی روح تک پہنچنے میں سہولت فراہم ہو، نیز اسلامی فقہ کی ابدیت ہر زمانے میں قائم ہو۔