بحث وتحقیق

تفصیلات

اتحادِ عالمی کی فیملی کمیٹی کی "عائلی زندگی سے متعلق درپیش فقہی احکام"کے زیر عنوان منعقد ورچوئل کانفرنس میں شرکت

اسلامی یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں کلیۃ الفقہ و الاصول ( مرکزی شاخ) نے بین الاقوامی ارید  پلیٹ فارم برائےعربی متکلمین  کے تعاون سے "خاندان سے متعلق نئے فقہی مسائل پر کانفرنس" کا انعقاد کیا، جو پہلی بین الاقوامی کانفرنس ہے۔ وہ کانفرنس جس کا انعقاد عملاً زوم پروگرام کے ذریعے 25 اور 26 شعبان 1444 ہجری مطابق 17 اور 18 مارچ 2023 کو کیا گیا.. 
کانفرنس میں انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز کی فیملی کمیٹی کی نمائندگی کمیٹی کی رکن اور اتحاد عالمی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی رکن ڈاکٹر ثنا الحداد نے کی، جہاں انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا. 
جس کا عنوان تھا: وراثت میں عدم مساوات کا شبہ"، اس مقالے میں انھوں نے پوری وضاحت کے ساتھ بتایا کہ تمام ادوار اور تمام نظاموں  میں عائلی قوانین ( وراثت کی دفعات ان کا حصہ ہیں) عام طور پر مذہبی اور اخلاقی تحفظات کے مطابق جاری وساری رہی ہیں، ان مسلم اصولوں کے تبدیل کر نے  کے لیے متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ اسلامی ممالک میں کئی دہائیوں سے خاندانی حکومتیں چل رہی ہیں، اس لیے یہ عدم مساوات کا سوال، شک اور تنقید کا موضوع بن گیا ہے: یہ سوالات عام طور پر  ان لوگوں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں جو اسلامی اقدار کو مسترد کرتے ہیں اور اسے ترک کرنے اور اسے بین الاقوامی طور پر سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، یا پھر ان لوگوں کی طرف سے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر نام نہاد اجتہاد کی راہ سے اسلام کے عائلی احکامات کو زمانے کے حالات اور بین الاقوامی معاملات کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں. 

اس کے بعد ڈاکٹر ثناء نے وراثت میں عدم مساوات کے شبہ کا علمی انداز میں جواب پیش کرتے ہوئے کہا کہ  وراثت کے مستحق ہونے میں مرد اور عورت میں مساوات ہے مرد اور عورت دونوں وارث ہوتے ہیں البتہ وراثت کے طریقہ کار میں فرق ہے۔

 انھوں نے میراث کے مسائل پر مثالوں کے ساتھ تفصیلی روشنی ڈالی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرد کی وراثت کو عورت کی وراثت پر ترجیح نہیں دی جاتی، اگرچہ لِلذِّكْرِ مثل حظ الانثیین " کا قاعدہ ہے اس کے باوجود کئی معاملات میں خواتین کو زیادہ یا برابر حصہ ملتا ہے. 
ڈاکٹر ثناء نے کانفرنس کے سیشنز میں اپنی شرکت کے دوران، کانفرنس میں پیش کیے گئے کچھ تحقیقی مقالوں پر متعدد مداخلتیں بھی کیں۔ جہاں ایک محقق نے ایک تحقیق پیش کی جس کا عنوان تھا: "جینیٹیک سائنس اور لعان کے حکم کے انکار پر اس کے اثرات"، جس میں انہوں نے بیان کیا کہ لعان کو ختم کرنا اور ڈی این اے کے نتیجے پر قناعت کرنا جائز ہے۔ ڈاکٹر ثناء نے مداخلت کرتے ہوئے اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ولدیت ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے پر انحصار کیا جا سکتا ہے اورنسب کی نفی میں ڈی این اے ٹیسٹ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔"
 انہوں نے مزید کہا کہ مسلم ورلڈ لیگ کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے ڈی این اے کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ولدیت کا انکار کرنے کے لیے ڈی این اے پر انحصار کرنا شریعت میں جائز نہیں، اور اسے لعان کے خلاف پیش کرنا جائز نہیں۔

ایک اور مقالہ پیش کیا گیا جس کا عنوان تھا: "رشتہ پیش کرنے کے دوران پیدا ہونے والے حمل کے ثبوت نسب کا مسئلہ، اسلامی فقہ اور قوانین کے درمیان تقابلی مطالعہ" پیش کیا گیا جس میں محقق نے ابن ولد الزنا کے نسب کا مسئلہ اٹھایا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فقہاء کا اختلاف، بعض اسلامی ممالک کے قوانین مثلاً مصری، مراکش، الجزائر اور تیونس کے قوانین کا ذکر کیا مزید بتایا کہ الجزائر کی عدالتوں نے منگنی کے نتیجے میں حمل کے جواز کو تسلیم نہیں کیا اور اسے بے حیائی قرار دیا ، جبکہ تیونس کی عدلیہ عرب دنیا کا واحد ماڈل ہے جس نے ابتدائی تاریخ میں شادی کے ادارے سے باہر پیدا ہونے والے بچے کے نسب کو تسلیم کیا، پھر محقق نے مذہب میں اجتہاد کی درخواست کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دو منگنی کرنے والے کے بچے کا نسب ثابت ہے ، اس خیال سے کہ اس کا نسب ثابت کرنا شریعت اسلامیہ سے خروج نہیں ہے!
اس مقالہ پر ڈاکٹر ثنا نے مداخلت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تیونس کا قانون زنا کرنے والے کے نسب کو تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ یہ "نسب" (جسے پرسنل اسٹیٹس کوڈ کے آرٹیکل 68 کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے) اور ناجائز "فائلیشن" کے درمیان فرق کرتا ہے۔ پرسنل اسٹیٹس کوڈ سے آزاد قانون کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے (1998 کا قانون نامعلوم والدین کے بچوں کے لیے کنیت کے خاندان کے انتساب سے متعلق) تیونس کا قانون مراکش کے قانون سے ملتا جلتا ہے، جو نسب اور ناجائز تعلق کے درمیان بھی فرق کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابن الخطیبن کے نسب کے حوالے سے تیونس کی عدلیہ نے ستر کی دہائی میں دس سال تک مداخلت کی اور ابن الخطیبن کے نسب کو اس بنیاد پر منظور کیا کہ وہ (یعنی عدلیہ) منگنی کو نکاح سمجھتے تھے۔ لیکن تیونس کے فقہ نے جلد ہی اس نقطہ نظر کو واپس لے لیا اور ابن الخطیبن کے نسب کو مسترد کردیا کیونکہ منگنی (رسم و قانون کے مطابق) عقد نکاح نہیں ہے، بلکہ شادی کا وعدہ ہے۔

ابن الخطیب کے نسب کو ثابت کرنے کی سمت میں دین میں اجتہاد کی دعوت کے سلسلے میں، د. ثناء نے کہا کہ اگر چہ ولد الزنا کے نسب کو منسوب کرنے کے مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے لیکن زانی اور زانیہ پر زنا کی حد کے اطلاق پر ان کا اجماع ہے۔ سوال کرنے والا پوچھ سکتا ہے کہ محقق نے جن ممالک کے قوانین (مراکش، الجزائر، تیونس اور مصر) کا جائزہ لیا ان میں سے کن ممالک میں زنا کی حد کی سزا کا اطلاق ہوتا ہے؟ زنا کی حد کی سزا معطل ہے اور زیادہ تر اسلامی ممالک میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور اس بنیاد پر زنا کے بیٹے کے نسب کو منسوب کرنے کا دعویٰ لوگوں میں بے حیائی پھیلانے کی ترغیب اور اسلامی قانون سے علیحدگی ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر، ڈاکٹر ثنا نے سفارشات کا ایک مجموعہ پیش کیا جو مینیسوٹا کی اسلامی یونیورسٹی نے منظور کی ہیں، جن میں بنیادی طور پر علماء اور مبلغین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بین الاقوامی معاہدوں کے فلسفے سے آگاہ رہیں جو مسلم معاشروں پر اثر انداز ہو تے ہیں۔اور دین میں اجتہاد کے نام تشکیک کی فضا قائم کرتے ہیں اور علماء اور مذہبی رہنماؤں سے مستقلاً مربوط رہنے کی ضرورت پر زور دیا... اور کسی بھی حال میں نام نہاد دانشوروں کے دام تزویر میں نہیں پھنسنا ہے، اور اصلاح کے نام پر تجدد پسند طبقہ کے خفیہ عزائم کی تکمیل نہیں کرنی ہے.


: ٹیگز



بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں