بحث وتحقیق

تفصیلات

مفتی عبدالغنی الازہری کا انتقال امت مسلمہ کے لیے بڑا خسارہ.. ماہرین تعلیم و سیاسی رہنماؤں نےتعزیت کا اظہار کیا

مفتی عبدالغنی الازہری کا انتقال امت مسلمہ کے لیے بڑا خسارہ.. 
ماہرین تعلیم و سیاسی رہنماؤں نےتعزیت کا اظہار کیا

 اس حسرت ناک خبر نے علمی حلقوں کو سوگوار کردیا کہ مشہور محدث و محقق اور ملک کے معمر ترین عالم دین بزرگ حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر عبد الغنی شاشی ازہری اپنی حیات مستعار کے سو سال مکمل کرکے "جشن صد سالہ" سے قبل ہی راہی ملک بقا ہوگئے. 
مفتی عبد الغنی شاشی بڑے عالم ربانی اور اہل اللہ میں سے تھے.  علامہ سید سابق مصری کے شاگرد تھے، امام مسلم اور ان کے منہج پر جامعہ ازھر میں ایک مفصل مقالہ بھی لکھا تھا، جو وہیں چھوڑ  آئے، علامہ زاھد الکوثری سے بھی استفادہ فرمایا تھا، مفتی صاحب سلف کی اچھی یادگارتھے ، دینی غیرت وحمیت سے سرشار ایک علم دوست اور مطالعہ کے رسیا تھے ، اللہ غریق رحمت فرماۓ آمین
مفتی صاحب شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کے ساتھی بھی تھے۔
تقريبا سو سال کی عمر میں وفات ہوئی آپ کی ولادتِ سن 1343ھ میں ہوئی تھی. 
رحمه الله تعالى رحمة واسعة
ملک کی اعلی علمی وفکری شخصیات بالخصوص جموں و کشمیر کے سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں،ماہرین تعلیم نے معروف اسکالر اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سابق سربراہ پروفیسر مولانا مفتی عبدالغنی الازہری کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ مفتی عبدالغنی الازہری آج سہارنپور اترپردیش میں انتقال کر گئے۔ وہ تقربیاً 100 برس کے تھے۔
آپ نے مختلف علاقوں میں سو ( 100 ) . سے زائد دینی مدارس کا آغاز کیا. ان میں سے متعدد مدارس کے تا حیات سرپرستِ اعلی اور منتظم بھی تھے ۔ آپ نے مظاہر العلوم سہارنپور ، دارالعلوم دیوبند اور
جامعة الازہر مصر  سے کسبِ فیض کیا . دارالعلوم دیوبند میں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی وغیرہ سے کسب فیض کیا. آپ مظاہر العلوم سہارنپور کے استاذ الحدیث بھی رہ چکے ہیں اور مدرسہ نظامیہ بادشاہی باغ سہارنپور ، جو آپ نے ہی قائم کیا ہے اور آپ کی ہی سرپرستی میں چل رہا ہے ، اس میں تاحیات شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے 
آپ ملک کے سب سے معمر مشائخ میں سے تھے آپ کا سلسلہ سند کمترین واسطوں سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے. 
آپ نے جامعۃ الازہر سے نفسیات میں ڈپلوما اور حدیث پاک میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی ہے ۔ P.H.D کے مقالہ کا موضوع اس طرح تھا کہ :
الامام المسلم و منھاجہ فی الحديث رواية ودرايةً "
علامہ و پروفیسر مفتی عبد الغنی از ہری صاحب ، وزیر اعلی جناب شیخ محمد عبد الله کی دعوت پر" مدينة العلوم حضرت بل" میں عربی زبان کے استاذ رہ چکے ہیں اس کے علاوہ آپ کو کشمیر یونیورسٹی کے عربی شعبہ کے سب سے پہلے (H.O.D) ہونے کا بھی اعزاز اور کریڈٹ حاصل ہے۔

آپ حضرت شاہ ولی الله دہلوی کے عاشق زار اور صحیح معنوں میں فکر ولی الہی کے حامل و حامی تھے. آپ کو امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت اور امام شافعی کے فقہی مذاہب پر کامل دسترس و عبور حاصل تھا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ ایک عظیم محقق ، ماہر علوم وفنون ، اولیائے امت کے ایک بہت بڑے گروہ کے صحبت یافتہ فیض یافتہ اور اجازت و خلافت یافتہ شخصیت تھے. 
 مفتی عبد الغنى ازبری صاحب کے مرشدوں اور روحانی رہبروں میں مولانا شاه عبد القادر رائے پوری ، رسول شاہ صاحب عرف ناگہ بابا ملن گام ، سید رسول شاہ نقشبندی مجددی اور حضرت کوثر علی شاه افغانی صفوی نقشبندی مجددى " صاحب وغیرہ شامل ہیں ۔ آپ نے ان سب سے کافی استفادہ کیا اور  روحانی فیض حاصل کیا ۔ چنانچہ آپ اس کو نعمت خداوندی شمار کرتے ہوۓ اپنی مشہور و معروف کتاب " نورِ عرفان " میں رقم طراز ہیں کہ :
اس کمترین پر خدا کی بے شمار نعمتیں ہیں ۔ جہاں اللہ تعالی نے مجھے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری جیسے مقتدر بزرگ اور مرشد سے بیعت کیا وہاں حضرت سید قطب وقت رسول شاه صاحب عرف ناگہ بابا جی ملن "گام کی مجلس بھی عطا کی اور حضرت پیر و مرشد سيدنا و مولانا قطب ولايت كوثر على صاحب صفوی نقشبندی مجددی افغانی جیسے رہبر کامل کی صحبت تام نصیب فرمائی اور 28 سال بارہا حضرت شریف صاحب" کی محفل " ہدایت منزل " میں حاضر ہونے کا موقع عنایت فرمایا. (نور عرفان ص 18 )
نور عرفان " نامی کتاب 608 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سید رسول شاہ نقشبندی مجددی کے مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے. جو انھوں نے ابدال ترال حضرت شریف صاحب اور ان کے یکے بعد دیگر ، جانشینوں کو بھیجے تھے ، جن کا مزار اور مقبرہ شریف آباد ترال میں واقع ہے اور ان ہی کے نام گرامی پر اس گاؤں کا نام بھی " شریف آباد " پڑھ گیا ہے ۔ حضرت شریف صاحب کے کہنے پر ہی علامہ مفتی عبد الغنی ازہری صاحب نے ان مکتوبات کو مرتب کرکے شائع کیا ہیں ، جسکو  علماۓ دین نے بہت سراہا ہے. 
الغرض مفتى عبد الغنى از بری صاحب از ہر هند ، دارالعلوم دیوبند کے بہت سے اکابر کے ہم عصر، بڑے اکابر کے فیض یافتہ اور اسلاف کے نمونہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ رابطہ مدارس اسلامیہ جموں و کشمیر سے منسلک تمام مدارس کے علماء کرام اور مفتیان عظام نے آپ کو  بالاتفاق اپنا سرپرست اعلی اور امیرِ شریعت  منتخب کیا تھا ۔  چند سال پہلے آپ ہی کی سرپرستی اور نگرانی میں جموں کشمیر کے قاضیان امارت شرعیہ کا انتخاب عمل میں آیا. 
آپ کے مشہور کارناموں اور تصنیفات میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ قدیم تاریخ گجر، نور عرفان مكتوبات نقشبندیہ اور امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رح) کی فارسی کتاب " مالابد منہ اردو ترجمہ وغیرہ شامل ہے ۔ 
آپ کے ایک خاص شاگرد اور مرید ، جو سرکاری ملازت کے ایک بہت بڑے منصب پر بھی فائز تھے ، کا کہنا ہے کہ : مفتی عبد الغنی از ہری صاحب کو سعودیہ عربیہ جیسے ملک نے بھی اپنے یہاں مدعو کرکے محکمہ تعلیم کا ایک عظیم منصب سونپنا چاہا تھا لیکن ازہری صاحب نے اس کو صرف یہ کہہ کر ٹھکرایا کہ مجھے اپنے ملک میں کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔
آپ کی شکل میں امت مسلمہ اپنے ایک عظیم سرپرست سے محروم ہوگئی... اللھم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ جنات النعیم.
بندہ خالد نیموی قاسمی


: ٹیگز



بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں