بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدالتی طلاق کے بارے میں اتحادِ عالمی کی فتویٰ کمیٹی کا فیصلہ
قرارداد نمبر ( 4)
بابت 1444ھ
جاری کردہ : اجتہاد و فتویٰ کمیٹی، انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز ۔
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین و علی آلہ وصحبہ اجمعین.
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آل اور آپ کے صحابہ کرام پر، اما بعد:
فقہ و فتویٰ کمیٹی نے 21 جنوری 2023 ء بمطابق 28 جمادی الاخری 1444ھ کو اپنے اجلاس میں مذکورہ موضوع پر غور و غوض کیا۔ اس میں عدالتی طلاق کے مسئلہ پر دو مقالے پیش کئے گئے. نیز اس موضوع پر ارکان نے وسیع غور و خوض اور بحث وتحقيق اور مناقشہ کیا... بعدازاں کمیٹی نے اتفاق رائے سے درج ذیل فیصلے کیے:
(1) اول: اسلام نے نکاح کو اس لیے مشروع کیا تا کہ نکاح کے ذریعہ زوجین کے مابین الفت ومحبت قائم ہو اور یہ رشتہ قلبی سکون، رحمت، پیار اور خوشی کا سبب ہو، نکاح کے ذریعہ ایسے گھرانہ کی تعمیر ہو جو ایسے نیک صالح اولاد کے لیے گہوارہ بن سکے جو معاشرہ کے لیے فائدہ مند ہوں ، نکاح کے یہ اھداف و مقاصد اس وقت تک بروئے کار نہیں لائے جاسکتے ہیں جب تک کہ دونوں کے درمیان خیر خواہی محبت، والفت، افہام و تفہیم ،تحمل اور رواداری پر مبنی تعلقات استوار نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں اور اس رشتۂ محبت میں کھٹاس پیدا ہو جائے. محبت کی جگہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف کے عوامل ظاہر ہو نے لگیں ، جھگڑے کے اسباب بڑھ جائیں ، خیالات مختلف اور اخلاق دیگر گوں ہو جائیں ، اور افہام و تفہیم اور تعاون کے بجائے انتشار مزید گہرا ہوجائے ، تو اس رشتہ کو برقرار رکھنا خیر کا سبب نہیں بلکہ اس بندھن کو مناسب انداز میں ختم کرنے اور اس کے لیے باوقار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جب یہ تعلق دونوں فریق کے لیے لعنت بن جائے تو ، اس ناخوشگوار صورت حال سے بچانے کے لیے آخری حل طلاق ہے، طلاق کے معاملے کو کسی ایک کی خواہش پر چھوڑا جاسکتا ۔
جب ازدواجی زندگی مشکل ہو جائے اور ازدواجی زندگی کو جاری رکھنے کا نقصان طلاق سے علیحدگی کے نقصان سے زیادہ ہو ؛ تو ایسے حالات میں شریعت نے طلاق کی اجازت دی ہے، طلاق میں میاں بیوی دونوں کے لیے بھلائی ہے. جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغۡنِ ٱللَّهُ كُلّا مِّن سَعَتِهِۦۚ وَكَانَ ٱللَّهُ وَٰسِعًا حَكِيما( [النساء: 130]{اور اگر وہ دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ دونوں کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا، اور اللہ وسعت والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
شریعت اسلامیہ کا یہ تقاضہ ہے کہ میاں بیوی کے لیے طلاق آخری آپشن ہونا چاہیے؛ اس سے قبل دونوں ازدواجی تنازعات کو حل کرنے اور آپس کے اختلافات کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرلیں ۔ اور طلاق کے مرحلہ کی تکمیل بھی میاں بیوی کے ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ اور حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ہو . جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں حکم دیا ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ موجودہ حالات میں خاندانی نظام کو نت نئے چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں ، اور طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے اسی طرح شادی کے رجحان میں کمی پیدا ہورہی ہے اور خاندانی سسٹم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔
(2) دوم: فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ طلاق خواہ زبانی ہو، یا تحریری ہو یا استعاراتی اور کنایہ کی شکل میں ہو ، اگر شوہر نے ان جملوں سے طلاق دینے کا ارادہ کیا ہے؛ تو شرعی طور پر طلاق واقع ہوجاتی ہے،الگ سے اسے قاضی کے سامنے طلاق کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ) سورة الطلاق:1. (اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو.)
اتحاد عالمی کی اجتہاد و فتویٰ کمیٹی، الازہر الشریف اور ھیئۃ کبار العلماء کی طرف سے زبانی طلاق کے واقع ہونے کے بارے میں جاری کردہ فتوی کی توثیق اور تائید کرتی ہے. یعنی جو طلاق شرعی اصول اور شرائط کے مطابق ہو اور شوہر کے اندر طلاق دینے کی اہلیت ہو اور اس نے طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو تو طلاق واقع ہوجائے گی.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج اسی کے مطابق امت کا عمل رہا ہے .
(3) سوم : فقہاء کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کے پاس ہے، یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے، نکاح کے شروع سے ہی شوہر رشتۂ نکاح کے تقاضے کے مطابق طلاق دینے کا حق رکھتا ہے ۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ عورت کو شروع سے ہی طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ یہ حق اسے بسا اوقات شوہر کی تفویض اور پاور آف اٹارنی سے حاصل ہوسکتا ہے ، یا اگر اس نے نکاح کے وقت ہی ایسی کوئی شرط لگادی تو بعض فقہاء کے نزدیک اسے ایقاع طلاق کا حق حاصل ہوگا.
قرآنی آیات بتاتی ہیں کہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہے۔ متعدد مقامات پر اللہ تعالٰی نے طلاق کی اضافت شوہر کی طرف کی ہے. سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً﴾ [الأحزاب: 49]، نیز سورہ طلاق میں فرمایا ’’(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ) سورة الطلاق:1. (اے نبی جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو.
فقہاء کے مابین یہ امر متفق علیہ ہے کہ عام حالات میں جس کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے وہ شوہر ہی ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے، لیکن اگر شوہر طلاق دینے کے حق کا غلط استعمال کرے، بیوی کے ساتھ زیادتی روا رکھے، بیوی کو نقصان پہنچایا جائے تو پھر اس صورتحال میں حکم مختلف ہوگا اور بیوی کو حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں دائر کرے.
اور اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے درمیان ازدواجی تعلقات کے جاری رہنے سے بیوی کو ضرر اور نقصان پہنچے گا تو اس صورت حال میں جج کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ شوہر کے علی الرغم بھی وہ طلاق واقع کردے ، اسلام کے عمومی اصول جو عدل وانصاف کا حکم دیتے ہیں،اور میاں بیوی کے درمیان حسن سلوک اور ہمدردی و خیر خواہی کی تلقین کرتے ہیں، ان کا یہی تقاضہ ہے.
ان تفصیلات سے یہ واضح ہوگیا کہ جو حضرات اس بات کے داعی ہیں کہ طلاق کا مکمل اختیار اولی طور پر جج کے ہاتھ میں ان کا موقف کس حد تک غلط اور ان کا نظریہ گمراہ کن ہے. اسی طرح جج کی نگرانی میں طلاق دینے کا مطالبہ کرنا ، تاکہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے جج کی اجازت کا محتاج ہو. جج کی اجازت کے بغیر طلاق نہ دے سکے، یہ نقطہ نظر بھی سراسر باطل ہے ، کیونکہ نہ کتاب اللہ اور نہ ہی سنت رسول اللہ نے شوہر کے طلاق کے حق کو محدود کیا ہے۔ شریعت نے کسی بھی شخص کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے جج سے اجازت طلب کرنے کا پابند نہیں بنایا ہے.
عہد صحابہ اور بعد کی مبارک عہد کے بعد سے اب تک علماء میں سے کسی نے یہ نہیں کہا طلاق دینے کے لیے جج کی اجازت ضروری ہے۔
(4)چہارم :البتہ حالات کے تحت شوہر کے لیے ضروری ہے کہ طلاق کو قانونی شکل میں مجاز حکام کے سامنے پیش کرنے کے بعد اسے رجسٹرڈ کروائے ۔ یہ بیوی اور بچوں کے مالی حقوق کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر دستاویزی طلاق ( جسے زبانی طلاق بھی کہا جاتا ہے ) درست نہیں ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ رجسٹریشن کا عمل صرف حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، جہاں تک طلاق کا معاملہ ہے تو جب بھی معتبر شرائط کے ساتھ شوہر طلاق دے گا تو طلاق واقع ہوجائے گی.
(5) پنجم : اتحادِ عالمی کی فتویٰ کمیٹی یورپین فتویٰ کونسل کی طرف سے جاری کردہ فیصلوں اور فتاویٰ کی توثیق کرتی ہے جس میں یورپ کے مسلمانوں سے شادی اور طلاق کے معاہدوں کو رجسٹرڈ کرنے اور اسلامی مراکز میں ہونے والے غیر دستاویزی معاہدوں پر قناعت نہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔نکاح وطلاق کے رجسٹرڈ کرنے کا یہ عمل ضرر کی وجہ سے طلاق یا خلع کی صورت میں خواتین کے حقوق کی حفاظت اور اولاد کے صحیح نسب کے حق، اور علیحدگی یا موت کی صورت میں نفقہ اور میراث کے حق کے تحفظ کا ضامن ہے ، اور اس سے تولیدی اعضاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سد باب بھی ہوتا ہے جب کہ نکاح وطلاق رجسٹرڈ نہیں کرانے کی صورت میں مذکورہ فوائد حاصل نہیں ہوتے بلکہ نقصان ہی ہوتا ہے.
(6)ششم :اتحادِ عالمی کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی زوجین سے یہ امید کرتی ہے کہ میاں بیوی دونوں خدا سے ڈریں، ایک دوسرے کو معاف کریں اور آپس میں حسن سلوک کا معاملہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: ’’ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ﴾ [البقرة: 237]،اور یہ کہ تم معاف کر دیا کرو یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اپنے درمیان احسان کرنا نہ بھولو‘‘۔ فتویٰ کمیٹی یہ بھی ہدایت کرتی ہے خاندانی نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے طلاق دینے میں جلدی بازی نہ کریں. خاندانی نظام کو توڑ نے والے ہر عمل سے بچیں. اللہ کی نگہبانی کا یقین رکھیں ، مشکلات پر صبر کریں اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کریں. خاندانی استحکام اور تسلسل کے لیے آپس میں تعاون، رعایت، اور شراکت داری کے عمل کو بروئے کار لائیں.. وصلی اللہ علی النبی الکریم وآلہ وصحبہ اجمعین
(درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ پر)
اجتہاد و فتویٰ کمیٹی کے ارکان، جنہوں نے فیصلے کی منظوری دی۔
١.علی قرہ داغی (کمیٹی کے صدر)
٢.فضل مراد (المقرر العام)
٣.نور الدين الخادمي رکن
4 سلطان الہاشمی۔رکن
5. فریدہ صادق عمر. رکن
6. خالد حنفی رکن
7. مصطفیٰ دادش
8. عبداللہ زبیر
9. سالم الشیخی رکن
10. محمد کورماز
11. مسعود صابری. رکن
12. ابراہیم ابو محمد. رکن
13. عكرمة صبري رکن