جسمانی اور مالی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کا شرعی حکم ۔
سوال: جو شخص جسمانی اور مالی استطاعت رکھتا ہو اس کے باوجود وہ فرائض ادا نہ کرے. اس کا کیا حکم ہے؟
حضرت علامہ شیخ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب تحریر فرمایا –
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ!
حج کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے، کیا حج فوراً فرض ہے یا تراخی کے ساتھ ؟ حج کو فوری طور پر فرض کہنے والوں نے دلیل کے طور پر کچھ احادیث نقل کی ہیں جن میں کہا گیا ہے: "حج کے لیے جلدی کرو، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس پر کیا گزرے گی" : "صحت مند بیمار ہو سکتا ہے اور مسافر عورت بھٹک سکتی ہے۔ ... تندرست آدمی بیمار ہو سکتا ہے، جوان بوڑھا ہو سکتا ہے، اورہر زندہ آدمی کو موت آنی ہے ، اور موت اچانک آ جاتی ہے، اس لیے انسان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ کر دے، اور جو کچھ ادا کرنا ہے ، وہ ادا کردے ۔ ایک رائے تو یہ ہے. ۔
ایک دوسرے قول کے مطابق : مذکورہ احادیث نیک اعمال جلد سے جلد کرنے کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ)، (وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ)،(لہذا نیک کاموں میں آگے بڑھو)، (اور اپنے رب کی طرف سے بخشش کی طرف جلدی کرو)، لیکن ان میں فوری فرضیت کی کوئی دلیل نہیں ہے، جیسا کہ یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال یعنی دسویں ہجری کے علاوہ کوئی حج نہیں کیا، آپ نے ، مثلاً ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج نہیں کیا ، اس سے پہلے مکہ فتح نہیں ہوا تھا اور نہ ہی مکہ جانا ممکن تھا۔ ، حالانکہ حج چھٹے سال میں فرض کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء کا خیال ہے کہ حج علی التراخی فرض ہے، اور اگرچہ وہ علی التراخی فرض ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ذمہ داری تو اسی فرد پر عائد ہوتی ہے ، اس لیے اگر اس کے پاس موقع ہو اور حج کرنے کی استطاعت ہو اس کے باوجود اس نے اس نے سستی کی۔ اس کے بعد یہ موقع ضائع ہو گیا (وہ امیر ہوا پھر غریب ہو گیا، تندرست ہو پھر بیمار ہو گیا) تو وہی شخص ذمہ دار ہوگا ، یعنی گناہ کا بوجھ اسی شخص پر عائد ہوگا ۔ غزالی نے کتاب الاحیا کے کتاب الحج میں لکھا ہے؛ إنه تمام الأمر وختام العمر.. إلخ.کہ یہ امر کی تکمیل اور زندگی کے اختتامی اعمال میں سے ہے۔
پہلے لوگ حج سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے تھے، اب الحمد للہ، اسلامی بیداری کے زمانے میں آپ کو حج اور عمرہ کے موسم میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نظر آئے گی اسی طرح رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے والے کثیر تعداد میں آپ کو الحمد للہ جوان مرد اور عورتوں کو پائیں گے ، اور یہ امت اسلامیہ کے لیے ایک اچھا ثبوت ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ حج میں جلدی کرنا ایک ترجیح ہے کیونکہ ایک شخص اپنی صحت، اس کی زندگی یا اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ترجمة الفتوى: ما حكم من يمتلك القدرة البدنية والاستطاعة المالية ولا يؤدي الفريضة؟