بحث وتحقیق

تفصیلات

اقتصادی بائیکاٹ کے حوالے سے انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز کی اجتہاد و فتویٰ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ کی قرارداد نمبر (6)بابت 1444ھ

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسول الله الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد: بعض غیر اسلامی ممالک میں بعض حکمرانوں، اداروں یا افراد کی طرف سے وقتاً فوقتاً اسلامی مقدسات اور اسلامی شعائر کی توہین کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں اس کے پیش نظر، فقہ و فتویٰ کمیٹی نے 3 رمضان 1444ھ مطابق 25 مارچ 2023کو اپنے اجلاس میں مذکورہ بالا موضوع پر غور کیا۔ اقتصادی بائیکاٹ کے موضوع پر دو مقالے پیش کیے گئے، اور اراکین کی طرف سے وسیع غور و خوض کے اور نفس مسئلہ کے تمام حقائق سے آگاہ ہوکر کمیٹی نے درج ذیل فیصلے کیے : اول : اقتصادی بائیکاٹ کا مفہوم ان ممالک اور افراد کے ساتھ مالی معاملات سے پرہیز کرنا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، یا جنہوں نے اسلامی شعائر اور اسلام کے مقدسات کی توہین کی ہے ، خواہ وہ مذہبی طور پر ہو یا ، معاشی، سماجی یا میڈیا کے ذریعے ہو. اصول یہ ہے کہ معاشی بائیکاٹ اس صورت میں درست ہے جب معاشی بائیکاٹ کی مصلحتیں. موجود ہوں. معاشی بائیکاٹ ایک طرح کا مالی جہاد ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاهِدوا المشرِكينَ بأموالِكُم، وأنفسِكم، وألسنتِكُم"(صحيح أبي داود برقم 2504)،”اپنے مال، اور اپنی جان اور اپنی زبان سے مشرکوں کے خلاف جہاد کرو۔ مشرکین کے ساتھ خرید و فروخت کے معاملے کو ترک کر دینا بھی درحقیقت جہاد بالمال کی ایک شکل ہے. صحیح البخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: "ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے کے بعد کہا گیا: کیا تم صابی اور بددین ہو گئے ہو ؟" انھوں نے کہا کہ میں بددین نہیں بنا بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ہےاور اگر تم اپنی روش پر قائم رہے تو یمامہ سے رسول اللہ کے حکم کے بغیر تھوڑا بھی غلہ نہیں آئے گا ۔" معاشی بائیکاٹ کو تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں نے دوسرے فریق سے اپنے مخصوص مطالبات کو تسلیم کر وانے کے لیے یا کسی خاص پالیسی سے گریز کرنے کے لیے دباؤ اور روک تھام کے طریقے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی طرف سے اس کا استعمال سے کوئی نئی چیز نہیں ہے. یہ عالمی نظام کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے۔ دوم : سابقہ ​​شق میں بائیکاٹ کے جواز کی بنیاد پر، بیت المقدس پر قابض اسرائیلیوں کی تمام اقتصادی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کرنا درست بلکہ لازم ہے. یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ، بائیکاٹ کے ضمن میں ان کے ساتھ براہ راست یا کسی ایجنسی کے واسطے سے خرید و فروخت کرنے ، درآمد،وبر آمد کرنے کرایہ دینے اور لینے، وغیرہ سے اجتناب کرنا شامل ہے ۔ ، کیونکہ غاصب صہیونی قوتوں کے ساتھ کاروبار کرنا ان کے ساتھ یکجہتی اور تعاون ہے اور ہمیں اس سے شرعا منع کیا گیا ہے، اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) سورة الممتحنة آية 9) (لیکن خدا تمہیں ان لوگوں سے دوستی استوار کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے نام پر قتال کیا ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہیں نکالنے کی سازشیں کی ہیں ، اس کے باوجود جنھوں نے ان سے دوستی استوار کی تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں. غاصبوں اور ناجائز مسلط ہونے والے افراد کا بائیکاٹ تمام مذاہب اور بین الاقوامی قوانین میں ایک طرح کی جائز مزاحمت ہے۔ سوم : ضروری ہے کہ - شریعت کے مطابق - تمام پرامن طریقوں سے، مثلاً میڈیا اور قانونی طور پر اسلامی مقدسات اور شعائر کی توہین کرنے والوں کا جواب دیا جائے، اور علمی اور دعوتی اسلوب سے ان کے شبہات کا ازالہ کیا جائے، اور اس امر کی نشاندہی کی جائے۔ کہ مسلمانوں کے تعلقات پر توہین کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے. چہارم : بائیکاٹ کا حکم ہر اس ریاست پر لاگو ہوتا ہے جو اسلام اور اس کے مقدسات کے خلاف جنگ یا دشمنی کا اعلان کرتی ہے اور اس کا اعلان حکمران طبقہ ، حکومت یا ریاست کے عہدیداران سرکاری عملہ کے ذریعے کرتی ہے۔ پنجم: حکومت قطر کی طرف سے ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا جو اسلامی اقدار اور شعائر کو مجروح کرتے ہیں، اس ملک کے علماء پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اس بائیکاٹ سے ہونے والے فوائد، نقصانات اور دیگر اثرات کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں،خاص طور پر اس سلسلے میں ماہرین اقتصادیات سیاست دان، اور دیگر،کے مشورے سے۔ استفادہ کیا جا ئے ، اور ہر ملک کے قانونی نظاموں اور ضوابط کے مطابق ردعمل کی مناسب شکل کا جائزہ لے لیا جائے. خاص طور پر ۔ غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کے تعلق سے وہاں کے مناسب حال اسلوب اختیار کیا جائے. ششم : اسلامی حکومتوں پر فرض ہے کہ وہ سفارتی سیاسی ذرائع سے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اسلامی مقدسات کی خلاف ورزی پر اعتراضات جتانے کے لیے اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں۔اور اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے مضبوط سیاسی لائحہ عمل مرتب کریں. واللہ الھادی الی الحق والصواب وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين اجتہاد و فتویٰ کمیٹی کے ارکان جنہوں نے فیصلے کی منظوری دی۔ 1 علی قرہ داغی کمیٹی کے چیئرمین 2فضل مراد 3محمد الحسن الددو، رکن 4سلطان الہاشمی، رکن 5 فریدہ صادق زوزو، رکن 6.محمد کورماز، رکن 7. ابراہیم ابو محمد، رکن 8. مسعود صابری، رکن 9. سالم الشیخی ،رکن 10. مصطفیٰ دادش، دکن 11. احمد کافی عبداللہ زبیر


: ٹیگز



بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں