سوال:
شوال کے چھ روزے رکھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان ایام میں روزہ رکھنا ضروری ہے؟
فتویٰ:
رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا احادیث سے ثابت شدہ سنت ہے اور ان روزوں کی ترغیب میں فرمایا گیا کہ جس نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ اور شوال کا پورا مہینہ ان روزوں کا محل ہے، لہٰذا عید کے دن کے علاوہ اس کے پہلے، درمیانی یا آخری چھ روزے رکھنے سے سال پورا ہو جاتا ہے، اور یہ شرط نہیں کہ یہ روزے لگاتار ہوں۔
اس سلسلے میں حضرت علامہ شیخ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے چھ روزے شوال کے ساتھ رکھنے کی تاکید فرمائی، جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من صام رمضان ثم أتبعه ستًا من شوال فكأنما صام الدهر كله" (رواه مسلم في الصيام -1164، وأبو داود -2433، والترمذي -759 وابن ماجة -1716) "جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے۔ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے۔"
یہاں صوم دہر سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد مکمل سال ہے؛ گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے، اسی طرح اگر اس نے پورے سال روزے رکھے تو گویا اس نے ہمیشہ کے روزے رکھے۔ اس کی وضاحت ایک اور حدیث میں آئی ہے کہ ایک مہینہ کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں تو یہ سال کے روزے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کیا ان دنوں میں یہ ضروری ہے کہ ان روزوں کو براہ راست رمضان کے ساتھ ملایا جائے، تاکہ ان کا روزہ عید کے بعد والے دن سے شروع ہو؟ جیسا کہ "اتبعہ" کی اصطلاح سے ظاہر ہے، یا یہ کافی ہے کہ یہ روزے شوال کے پورے مہینے میں کسی بھی چھ ایام میں ہوں ؟
اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے لیکن میں دوسری رائے کی طرف مائل ہوں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ مسلسل روزے رکھے جائیں ، اس لیے اگر کوئی متفرق طور پر روزے رکھے تو بھان شاء اللہ اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
ائمہ کرام میں سے صرف امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا کہ ان چھ دنوں کے روزے رکھنا مکروہ ہے، ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ یہ بھی رمضان کا حصہ ہے، اور انھیں بھی رمضان المبارک کی طرح لازم سمجھنے لگیں ، اور انھیں چھوڑنے والوں کی مذمت کرنے لگیں. علامہ شاطبی نے لکھا ہے کہ بعض عجمی افراد اس طرح کے غیر معقول رویہ کے شکار ہوگئے.. لہٰذا سد ذریعہ کے طور پر اس کی ممانعت کی گئی. اس لیے کہ اس سوچ کی کوئی دلیل کتاب وسنت سے نہیں ملتی ہے ، یہ امر بھی قابل توجہ ہے جیسا کہ علامہ شوکانی نے ذکر کیا ہے کہ اگر لوگ سنت پر عمل ترک کر دیں تو ان کا ترک کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سنت رد ہو جائے گی،
جب ان روزوں کے ثبوت کے بارے میں حدیث صحیح موجود ہے، تو بالیقین یہ روزے مستحب ہوں گے یہاں رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، خاص طور پر اگر یہ رائے پختہ ہو کہ ان روزوں کا رمضان کے ساتھ اس کا براہ راست تعلق نہیں ہے۔.
واللہ اعلم بالصواب