امریکہ:
دہشتگرد لسٹ میں نام شامل کرنے پر مسلمان میئر کاامریکی حکومت کے خلاف مقدمہ
امریکی ریاست نیو جرسی کے ایک شہر کے مئیر، جنہیں اس سال وہائٹ ہاؤس کی ایک تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا تھا، ان درجن بھر امریکیوں میں شامل ہیں جو دہشت گردوں کی ایک ایسی واچ لسٹ کے مسلسل استعمال کے لئے امریکی حکومت پر مقدمہ دائر کر رہے ہیں جو گیارہ ستمبر دو ہزار گیارہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد تیار کی گئی تھی۔
نیو جرسی کے شہر پراسپیکٹ پارک کے مئیر محمد خیر اللہ کو جو پانچ مدتوں سے وہاں کے مئیر ہیں، دوسرے منتخب مسلمان عہدیداروں کے ساتھ مئی میں وہائٹ ہاؤس میں عید کی ایک تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن تقریب سے کچھ ہی دیر پہلے انہیں بتایا گیا کہ انہیں کمپاؤنڈ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
SEE ALSO: نیوجرسی کے مسلم مئیر کو وائٹ ہاؤس کی عید الفطر کی تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا
سیکریٹ سروس نے تو یہ وضاحت نہیں کی کہ اس نے انہیں شرکت کی اجازت کیوں نہیں دی لیکن خیر اللہ اور گیارہ دوسرے لوگوں نے جو مقدمہ کیا ہے، اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ انہیں اس لئے روکا گیا کہ ان کا نام دو ہزار انیس اور دو ہزار بائیس کے درمیان دہشت گردوں کی واچ لسٹ میں شامل تھا۔
دائر کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اگست دو ہزار بائیس کے قریب جبکہ مدعا علیہان نے اس فہرست سے مسٹر خیر اللہ کا نام نکال بھی لیا۔ لیکن انہوں نے آج تک بھی اس سلسلے کو جاری رکھا تاکہ واچ لسٹ میں ماضی میں ان کے نام کی شمولیت کے حوالے سے ان کو نقصان پہنچانے اور رسوا کرنے کے لئے ریکارڈ برقرار رہے۔
یہ مقدمہ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز یا کئیر نے جو کہ ایک مسلمانوں کی وکالت کرنے والا گروپ ہے، انیس وفاقی اداروں کے خلاف دائر کیا ہے جن میں محکمہ انصاف، ایف بی آئی، سیکریٹ سروس، کسٹمز۔ بارڈر پروٹیکشن اور ٹرانسپورٹ سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن شامل ہیں۔
مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ مدعیان میں آٹھ امریکی شہری ، تین مستقل رہائشی اور ایک پناہ یافتہ شامل ہیں۔ اور انہیں اس فہرست میں مذہب کی بنیاد پر شامل کیا گیا ہے۔
کئیر کے وکیل حنا مِلن نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان سب کو وفاقی لسٹ میں بلاوجہ شامل کردیا گیا حالانکہ نہ کبھی ان کے خلاف کوئی تحقیقات کی گئی۔ نہ انہیں کبھی دہشت گردی سے متعلق کسی جرم میں کوئی سزا سنائی گئی۔ اور وفاقی حکومت کے پاس اس کے سوا اس شبہے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ان کا اسلامی عقیدہ ہے، ان کے ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ان کے آبائی وطن اسلامی ملک ہیں یا مسلمان اکثریت والے ملک ہیں اور بہ حیثیت مسلمان ان کی شناخت کی تمام علامات موجود ہیں۔
امریکی عہدیدار اس واچ لسٹ کو ایک اہم سیکیورٹی ٹول کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ اسےمسلمانوں کو ہدف بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے دہشت گردی یا دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا معقول حد تک شبہ ہے۔ اور یہ کہ دوسرے اداروں کے ساتھ اس فہرست کو شئیر کرنے سے امریکی محفوظ رہتے ہیں۔
سیکریٹ سروس کا کہنا کہ وہ قانونی کارروائی کے معاملات پر تبصرہ نہیں کرتی ، لیکن وائس آف امریکہ کے لئے ایک بیان میں ایجنسی کے ترجمان نے کہا کہ جیسا کہ ہم ماضی میں بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم مئیر کو وہائٹ ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے اور اگر اس سے انہیں کوئی دقت یا پریشانی ہوئی تو ہمیں اس پر افسوس ہے۔
محکمہ انصاف نے زیر التوا مقدمے کے پیش نظر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے نے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بوسٹن کے یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ سے جہاں یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے، درخواست کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو حکم دے کہ وہ مدعیان کے نام فہرست سے نکالے۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تبدیلیاں کرے کہ فہرست آئین اور قانون کے مطابق ہے۔
اس واچ لسٹ میں ایسے پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگوں کے نام شامل ہیں جو جانے پہچانے یا مشتبہ دہشت گرد ہیں.