خادم قوم وملت حضرت مولانا غلام وستانوری
جوار رحمت میں!
آج مورخہ 4/ مئی بروز اتوار ظہر اور عصر کے درمیان یہ
افسوس ناک خبر ملی کہ خادم قرآن اور ہزاروں اداروں اور جامعات و مکاتب کے ذمہ دار
و سرپرست جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے روح رواں و میر کارواں جناب حضرت مولانا
غلام وستانوری صاحب رح اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للّٰہ وانا
الیہ راجعون۔
یقینا مولانا
مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور ملت کے لئے قیمتی سرمایہ تھے، وہ علم و عمل
اور اخلاص و یقین کے جامع مرد مجاہد انسان تھے ،انہوں نے تنہا اتنے کام اور ذمہ
داریاں انجام دیں، جو کام پوری ایک تنظیم اکادمی اور سوسائٹی کرتی ہے ، اس اعتبار
سے وہ پوری ملت کے لئے اور بطور خاص میدان عمل میں کام کرنے والوں کے لئے آڈیل اور
نمونہ تھے ۔ میں نے جن علماء کا نام و کام کا کثرت سے لوگوں کی زبان سے تذکرہ سنا
،ان میں مولانا وستانوری رح بھی نمایاں اور سر فہرست ہیں ۔
وہ ایک عظیم اور عبقری انسان تھے ،انہوں اپنی پوری زندگی
دین متین کی خدمت اور امت کی اصلاح و فلاح میں صرف کی ،بلکہ وقف کر دی تھی ، ان کی
وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے ۔
مولانا کی
علالت کی خبر تقریباً ایک ہفتہ سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، لوگ اور بطور
خاص ان کے محبین و تلامذہ ان کے ادارے سے فارغ ہزاروں علما و فضلا و حفاظ ان کے لیے
دعاء صحت کر رہے تھے ، لیکن قضا و قدر کا فیصلہ آچکا تھا اور آج وہ اللہ تعالیٰ کے
جوار میں اپنی طویل اور کثیر خدمات انجام دے کر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ ان کو صدیقین
اور ابرار کی زمرے میں شامل فرما کر اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔
مولانا مرحوم
علم و عمل کے جامع انتہائی متواضع مخلص اور بے لوث انسان تھے اور اپنی عالمی شناخت
اور پہنچان رکھتے تھے اور انہوں نے علم جدید و قدیم کے فرق کو مٹا کر ہر دو میدان
میں اپنا لوہا منوایا ،ان کی ذات خلوص اور سادگی کی پیکر تھی بلند اخلاق کے حامل
انسان تھے، وہ محبوب العلماء تھے،ان میں نہ کوئی طرہ تھا نہ طمطراق ،بس انہیں کام
سے لگن اور دھن وہ کام کرنا اور کرانا جانتے تھے اور وسائل کا صحیح جگہ استعمال بھی
، بس اللہ تعالیٰ نے انھیں کام کرنے کا سلیقہ خوب دیا تھا،وہ پوری یکسوئی سے کسی
کام کو انجام دیتے تھے اور حالات و مسائل کا ہمت و حوصلے سے سامنا کرکے آگے کے مشن
میں لگ جاتے تھے ، ان کی زندگی ،خدمت اور کارناموں پر مجھے رشک آتا تھا اور ان کو
میں اپنے لئے بطور خاص نمونہ سمجھتا تھا اور جب کبھی کسی کام میں ہمت ہارتا تو ان
کو یاد کرکے اپنے اندر مہمیز پیدا کرتا اور پھر لکھنے پڑھنے کے لئے تیار ہو جاتا ۔
انہوں نے تنہا وہ کام کیا اور وہ کارنامے انجام دیے جو
پوری بڑی تنظیم ادارہ اور جماعت کرتی ہے ۔
وہ انتہائی متحرک اور فعال انسان تھے وہ تنہا نہیں تھے
وہ افراد اور انجمن کے مانند تھے ان کے زیر اہتمام اور زیر نگرانی ہزاروں لوگ کام
کر رہے تھے ، ہزاروں لاکھوں افراد کی کفالت کا وہ ذریعہ تھے ۔
غلام محمد وستانوی (پیدائش: یکم جون 1950ء) ایک بھارتی
مسلمان عالم دین و ماہرِ تعلیم تھے، جو روایتی اسلامی تعلیم میں عصری مضامین کو
شامل کرنے کی کوششوں کے لیے معروف تھے۔ وہ اکل کوا، مہاراشٹر میں واقع جامعہ اسلامیہ
اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم تھے۔
یہ ادارہ بھارت کے اقلیتی طبقے کے زیر انتظام پہلے میڈیکل
کالج کی میزبانی کرتا ہے، جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے تسلیم شدہ ہے۔
وستانوی نے 2011ء میں مختصر وقت کے لیے دار العلوم دیوبند کے مہتمم کی حیثیت سے بھی
خدمات انجام دیں۔
ابتدائی و تعلیمی زندگی
غلام محمد وستانوی یکم جون 1950ء کو کوساڑی، ضلع سورت،
گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1952ء یا 1953ء میں ان کا خاندان وستان منتقل ہوا، جس کی طرف
نسبت کرتے ہوئے وہ وستانوی لکھے جاتے ہیں۔ وستانوی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ
قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔
انھوں نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم
حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے 1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں
داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی
تعلیم مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی
اور ذو الفقار علی شامل تھے۔
1972ء کے اواخر میں وستانوی نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر
پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔
انھوں نے بخاری محمد یونس جونپوری سے پڑھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری
بھی حاصل کی۔
1970ء میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے
دوران، انھوں نے محمد زکریا کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں شیخ کی
وفات تک ان سے استفادہ کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد، سید صدیق احمد باندوی سے رجوع
کیا اور ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔ مزید یہ کہ انھیں محمد یونس جونپوری سے بھی
اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔
عملی زندگی
تدریسی و عملی زندگی
تعلیم سے فراغت کے بعد وستانوی نے قصبہ بوڈھان، ضلع سورت
میں دس دن تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد 1973ء میں وہ دار العلوم کنتھاریہ،
بھروچ تشریف لے گئے، جہاں ابتدائی فارسی سے متوسطات تک کی مختلف کتابوں کی تدریس
ان سے متعلق رہی۔
1979ء میں انھوں نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا
کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں یہ ادارہ محدود وسائل کے ساتھ چھ طلبہ اور ایک استاد کے
ساتھ مکتب کی صورت میں قائم ہوا۔ وقت کے ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا گیا اور اسلامی و
عصری تعلیم کے امتزاج کے باعث ایک نمایاں تعلیمی مرکز کے طور پر ابھرا۔ ادارے کے
بہتر انتظام کی غرض سے وہ مستقل طور پر اکل کوا منتقل ہو گئے اور تب سے مہتمم کی حیثیت
سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ ادارہ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں، بیچلر آف ایجوکیشن
(B.Ed.) اور ڈپلوما ان ایجوکیشن (D.Ed.) کالجوں کے
ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیتی پروگرامز فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ادارہ انجینئرنگ،
فارمیسی اور میڈیکل کالج جیسے پیشہ ورانہ کورسز بھی پیش کرتا ہے، جنھیں میڈیکل
کونسل آف انڈیا سے تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ آئی ٹی، دفتر انتظامیہ،
سلائی اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے شعبوں میں بھی تربیتی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
اس جامع تعلیم کا مقصد طلبہ کو مذہبی اور عصری معاشرتی ذمہ داریوں کے لیے تیار
کرنا ہے۔وستانوی نے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی بنیاد رکھنے اور اسے منظم کرنے
کے ساتھ ساتھ بھارت کے مختلف علاقوں میں متعدد تعلیمی اور فلاحی ادارے بھی قائم کیے
ہیں۔ وہ ان اداروں اور ملک بھر کے دیگر اداروں کے انتظام و انصرام میں بھی فعال
طور پر شامل رہے ہیں۔
رکن مجلسِ شوریٰ، دار العلوم دیوبند
1419ھ مطابق 1998ء میں وستانوی دار العلوم دیوبند کی
مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور اپنے دورِ اہتمام میں بحیثیت مہتمم بھی مجلس شوریٰ
کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ تاحال مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔اہتمامِ دار
العلوم دیوبند اور درپیش مسائل
غلام محمد وستانوی 11 جنوری 2011ء کو دار العلوم دیوبند
کے مہتمم (وائس چانسلر) منتخب ہوئے۔ اس فیصلے کو ادارے کی قیادت میں ایک اہم اصلاحی
اقدام قرار دیا گیا۔
انھوں نے زور دیا کہ
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم حضرت وستانوی رح کی مغفرت
فرمائے اعلیٰ علین میں ان کو جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین نیز
ان کے تمام ورثاء متعلقین مستفدین و مسترشدین اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.