فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی حمایت کے حکم کے بارے میں
انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی کا فتوی
فتویٰ نمبر (2) بروز جمعہ 12 ربیع الآخر 1445 ہجری بمطابق 27 اکتوبر 2023ء ۔
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین و بعد!
اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی قابض صہیونی دشمن کی طرف سے غزہ میں کے باشندوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، قتل، نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر مسلسل کئی اجلاس سے گہری نظر رکھے ہوئی ہے۔
21 اکتوبر 2023 مطابق 6 ربیع الثانی 1445ء کو اس سلسلے میں ایک فتویٰ جاری کیا گیا تھا ، جس میں اس امر کو واضح کیا گیا کہ ملت اسلامیہ کے ہر فرد پر چاہے وہ عوام ہوں یا حکمران ہو، ان سب پر غزہ کے باشندوں کی ہر قسم کی مدد کرنا فرض ہے ، اور موجودہ پیش آمدہ عظیم مصیبت سے متعلق بہت سے احکام بیان کیے تھے ۔
ان حالات میں ایک اور واقعہ سامنے آرہا ہے کہ دشمن صیہونی غاصبوں کو بعض مسلمان مال، نقطہ نظر اور ان کے موقف کی واضح تائید کے ذریعے سپورٹ کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں شرعی حکم کی وضاحت کے طور پر کمیٹی مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کرتی ہے۔
اول: مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا اور مال ، ہتھیار یا کسی سیاسی موقف سے ان کی حمایت کرنا اسلامی شریعت کے مطابق اجماعی طور پر بڑی معصیت اور گناہ کبیرہ ہے .
1_ اس لیے کہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
تَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ (٨٠) وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ﴾ [المائدة: 80-81].
"تو ان میں سے بہت سوں کو دیکھے گا وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا۔ یقینا برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا کہ اللہ ان پر غصے ہوگیا اور عذاب ہی میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
اور اگر وہ اللہ اور نبی پر اور اس پر ایمان رکھتے ہوتے جو اس کی طرف نازل کیا گیا ہے تو انھیں دوست نہ بناتے اور لیکن ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
2-اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنانے سے خبردار کیا گیا ہے:: ﴿لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ﴾ [آل عمران: 28]. "ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا. اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔
علماء نے اس آیت میں تصریح کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد ، ان کی حمایت اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے احکام مندرجہ ذیل ہیں، :
پہلی صورت: جو کوئی کافروں سے بظاہر دوستی قائم کرتا ہے لیکن اس کے باطن میں کفر کی محبت نہیں ہے یہ خدا اور اس کے رسول کے موالات سے سے علیحدگی سمجھی جائے گی. ایسا کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسے علامہ شوکانی (1/380) نے فتح القدیر میں بیان کیا ہے:
"اللہ تعالیٰ کے قول: {فليس من الله في شيء} کا مطلب یہ ہے کہ : وہ اللہ کی ولایت میں بالکل نہیں رہا بلکہ وہ ہر حال میں اس سے الگ ہو گیا ۔"
علامہ قرطبی کی الجامع لاحکام القرآن (4/57) میں ہے : یعنی: وہ اللہ کی جماعت میں سے نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اولیاء میں سے ہے۔
دوسری صورت: علماء نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ جو کوئی کفار کی مدد کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی حمایت کرتا ہے ، اور ایسا کفر کی محبت میں ہوتا ہے۔ تو یہ اسلام سے ارتداد ہے، العیاذ باللہ ، علامہ رازی نے مفاتیح الغیب یا التفسیر الکبیر (8/192) کی تفسیر میں لکھا ہے :
"سمجھ لینا مومن کا کافر کا وفادار ہونا تین طریقوں سے ہو سکتا ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے کفر پر راضی ہو اور کفریہ امور کا خیال رکھتا ہو.. ایسا کرنا اس پر حرام ہے۔ کیونکہ جس نے بھی ایسا کیا وہ در حقیقت اس کافر کے دین کو صحیح قرار دیتا ہے اور کفر کو درست قرار دینا کفر ہے اور کفر کو قبول کرنا بھی کفر ہے۔ اس کے لیے ان منفی صفات کے باوجود مومن رہنا ناممکن ہے۔‘‘
امام طبری نے اپنی تفسیر جامع البیان (5/315) میں لکھا ہے:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، کافروں کو حامی و مددگار نہ بناؤ۔ تم ان کے دین میں ان کی حمایت کرتے ہو، مسلمانوں کے مقابلے میں تم ان کی حمایت کرتے ہو، اور ان کے محارم کی طرف دشمنوں کی تحریض کرتے ہو۔ جو بھی ایسا کرتا ہے اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے بری ہو گیا ، اور اللہ بھی اس سے بری ہوگیا، اس لیے کہ وہ اس کے دین سے بری ہوگیا .
ابن عاشور نے "التحریر والتنویر" (3/217) میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
کافروں کے ساتھ موالات کی پہلی صورت: یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندرونی معاملات میں کافروں کے گروہ یا فرقے کو اپنا دوست بنالے ۔ ان کے کفر کی طرف رجحان رکھتے ہوئے ، اور اہل ایمان سے نفور اختیار کرتے ہوئے ، یہ حالت کفر کی ہے، اور یہ منافقین کی حالت ہے۔
3. _اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جو یہود و نصاریٰ کی حمایت کرتا ہے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ انہیں میں سے ایک ہے اور اس کے اعمال اکارت ہوجائیں گے. فرمان باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (٥١) فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾ [المائدة: 51-52]اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑے جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر گردش آنے کا ڈر ہے تو قریب ہے کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے پھر یہ لوگ اس پر پچھتائیں گے جو اپنے دلوں میں چھپاتے تھے۔
علامہ رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب یا التفسیر الکبیر (12/377) میں لکھا ہے :
"مطلب یہ ہے کہ جو ایمان انہوں نے ظاہر کیا تھا وہ ختم ہو گیا ہے، اور ان کی ہر نیکی کو باطل کر دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اب یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ وفاداری ظاہر کی ہے۔ پس وہ دنیا اور آخرت میں خسارے میں پڑ گئے۔
4_ اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ ان کی کافروں سے دوستی اللہ کے عذاب، بدبختی اور غضب کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اس قوم سے دوستی رکھتے ہیں جن پر خدا غضب نازل ہوا، وہ نہ تم میں سے ہیں نہ ان میں سے نہ تم میں سے ، افسوس ہے وہ جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں،
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھا ہے.
دوم: غاصب صہیونی دشمن کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کرنا بالکلیہ حرام ہے ۔مثلاً ان کی ترجمانی کرنا ، یا ان کی تائید کرنے والی میڈیا رپورٹ تیار کرنا، یا حقائق کو جھوٹا قرار دینا، جو بھی ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا، اور اس کے لیے وہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا، اسے اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّما يَنْهاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (56).’’اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے پر اصرار کیا تاکہ تم پھر جاؤ، وہ اور جو ان سے دوستی کرے گا وہی ظالم ہیں۔ 56)۔
تیسرا: غزہ اور فلسطین میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد، حمایت اور امداد پہنچانے میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور سرحدیں بند کر کے محاصرہ کرنے میں دشمنوں کی مدد کرنا خیانت، ناانصافی اور گناہ اور جارحیت میں تعاون شمار کیا جائے گا ، اور جو بھی قتل، زخمی ہورہا یا دیگر ، جو بھی نقصان ہورہا ہے اس کا وبال اس شخص پر ہوگا جس نے بھی ان کا محاصرہ کیا یا ان کا محاصرہ کرنے میں مدد کی اس کا اللہ کے نزدیک بوجھ اور وبال میں حصہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى (2) قال تعالى: ﴿وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لا تُنصَرُونَ ﴾ [سورة هود: 113]. "اور نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، لیکن گناہ اورظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے. نیکی اور تقویٰ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو. (2) اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: "اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آ گ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہاراکوئی حمایتی نہیں پھر مدد نہ پاؤ گے۔"
چہارم : اے مسلمانو! جان لو کہ اگر تم اس کی حمایت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے گا. اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں عزت سر بلندی عطا فرمائے گا. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ... مزید فرمایا :وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ﴾ [محمد: 7]
اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا"جنھوں نے کفر ان کے لیے ہلاکت ہے، اور ان کے اعمال اکارت ہوجائیں گے [محمد:7]، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور اللہ اپنے معاملات پر قادر ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (یوسف: 21)
انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ فتویٰ.