بحث وتحقیق

تفصیلات

غزہ پر صیہونی حملے کے خلاف اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کے بارے میں فتویٰ.

غزہ پر صیہونی حملے کے خلاف اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کے بارے میں فتویٰ. 

بسم اللہ الرحمن الرحیم. الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد النبی الامین. وعلی آلہ وصحبہ اجمعین! 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، جو مجاہدین کا حامی، مظلوموں کا مددگار، مصیبت زدوں کی دعاؤں کو قبول کرنے والا، عورتوں اور بچوں، یتیموں اور مسکینوں پر مہربان، غاصبوں کو شکست دینے والا، ظالموں اور  جارح کفار کی بنیادیں ہلانے والا منافقین کی امیدوں خاک میں ملانے والا اور  عقلمندوں کے ضمیروں کو زندہ کرنے والا ہے. امابعد! :

 

اتحادِ عالمی کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی قابض صہیونی دشمن کی طرف سے غزہ کے باشندوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، قتل عام ، نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر مسلسل کئی اجلاس سے گہری نظر رکھے ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں فتویٰ جاری کیا گیا تھا ، جس میں اس امر کو واضح کیا گیا کہ ملت اسلامیہ کے ہر فرد پر چاہے وہ عوام ہوں یا حکمران ہو، ان سب پر غزہ کے باشندوں کی ہر قسم کی مدد کرنا فرض ہے ، اور موجودہ پیش آمدہ عظیم مصیب آفت سے متعلق بہت سے احکام بیان کیے تھے ۔

لیکن ظالم جابر صہیونیوں کی طرف سے غزہ میں مسلسل بمباری جاری ہے، اور ان حالات میں مسلم اور عرب ممالک اپنے مطلوبہ کردار کو پوری طرح ادا نہیں کررہے ہیں 

اس سلسلے میں شرعی حکم کی وضاحت کے طور پر کمیٹی غزہ پر صیہونی حملے کے خلاف اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری کے بارے میں 

مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کرتی ہے۔ :

 

 

 

1-    قانونی طور پر حکمراں حکومتوں اور سرکاری فوجوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غزہ کو نسل کشی اور جامع تباہی سے بچانے کے لیے فوری مداخلت کریں، بین الاقوامی معاہدوں اور حکمت عملی کے مطابق، مذہبی، سیاسی، قانونی اور اخلاقی طور پر فلسطین کی حمایت کے فریضے سے مکمل وابستگی کے ساتھ۔ خطے اور قوم کے مفادات اور عوام پر ان کے شرعی موالات کے مطابق مظلوم مقہور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اقدامات کرنا فرض ہے ۔

 

2-    مسلم ممالک پر شرعا یہ لازم ہے کہ وہ فوجی مداخلت اور فوجی سازوسامان اور مہارت کی فراہمی کے ذریعہ  غزہ کی مزاحمتی طاقتوں کی مندرجہ ذیل طریقہ کے مطابق مدد کریں. 

 

 

ا_  سب سے پہلے، فلسطینی اتھارٹی کی سطح پر اور فلسطین کے اندر موجود تمام مزاحمتی برگیڈ کی سطح پر چاہے وہ مغربی کنارے پر ہوں یا فلسطین کے دیگر خطوں میں. 

 

ب_ پھر یہ فریضہ چاروں قریبی ممالک مصر،  اردن، شام اور لبنان پر عائد ہوتا ہے۔

 

 

ج.  اسی طرح یہ فریضہ تمام عرب اور اسلامی ممالک پر عائد ہوتا ہے کہ وہ فلسطینی کی اندرونی طاقتوں اور اس کے چاروں قریبی ممالک کے ساتھ مل کر، ایک فوری اتحاد کے قائم کریں؛ جو دہائیوں سے جاری ہچکچاہٹ اور کمزوری کی حالت پر قابو پاسکے ،ان ممالک کی غفلت کی وجہ سے قابض اسرائیل اپنے لامحدود جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔جس کی وجہ سے ایک عمومی اور جامع ہولوکاسٹ کے خطرات درپیش ہیں، اور پورے خطے اور اس کے گردونواح کے لیے ایک جامع تباہی کا خطرہ ہے۔

 

3-    علماء کرام ،معزز اشرافیہ؛ مخیر طبقہ اور ہر قسم کے اداروں کا شرعی فرض ہے کہ وہ اپنے فرض کی انجام دہی کے لیے فوری اقدامات کریں۔ یہ سب حکمران حکومتوں، سرکاری فوجوں، اور قانون سازی، پارلیمانی اور عدالتی سیاسی اداروں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مسئلہ فلسطین میں فوری مداخلت کریں اور تیزی سے کام کریں، اور اپنی مذہبی، تاریخی، آئینی اور اسٹریٹیجک ذمہ داریوں کو ادا کریں۔

 

4-    عوام اور افراد کے لیے سب سے خطرناک چیز  اپنے حقوق کے حصول اور ان کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو دور کرنے میں مایوسی کی کیفیت ہے؛ جو کہ عام بدامنی اور بے اطمینانی کو جنم دے سکتی ہے. جس کی حد اور نتیجہ صرف اللہ ہی کے علم میں ہے، خاص طور پر حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کی جانب سے وسیع پیمانے پر ہلاکتیں اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لیے ظالم جابر اسرائیل کے حق میں ۔ ہتک آمیز اور اشتعال انگیز مغربی حمایت، اور مزاحمت اور اس کی حمایت کرنے والے کروڑوں لوگوں کے ساتھ بددیانتی اور غداری، اور ہر عضو کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش ، اور ہر آواز کو زبردستی دبادینے، اور ہر ذی روح کو خاموش کرنے  ،  ، زبردستی جلاوطنی کی پالیسی، نیز مذاکرات کے ذریعے دہائیوں سے صرف جھوٹ اور خیانت کا ہی مشاہدہ ہوا. کبھی ، کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ مزید تباہی، نقل مکانی، آبادکاری، اور مسلسل جارحیت اور بدعنوانی کے ساتھ ظلم کا سلسلہ جاری رہا ۔ ..

 

5-    اسرائیل کے لیے بھرپور مغربی امداد - فوجی، مالی، میڈیا، سفارتی اور اسٹریٹجک ہر سطح پر جاری ہے، اس پس منظر میں لازم ہے کہ ... عرب اور اسلامی ممالک  بین الاقوامی توازن کے حصول اور بدامنی کو پھیلانے والے ظلم کو روکنے کے لیے فوجی، مالی، میڈیائی، سفارتی اور اسٹریٹجک طور پر ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کریں۔جس کے ذریعے ہر قسم کی تباہی کا سامنا کیا جاسکے.  یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مسلم ممالک کی سرکاری فوجیں جن کی تعداد چالیس لاکھ ہے اور جس پر سالانہ 170 بلین ڈالر خرچ ہوتے ہیں، اپنی بیرکوں تک محدود رہیں! ، ان کے ہتھیاروں کو زنگ لگ جائے، ان کا نظام تباہ ہو جائے، قوم تباہ ہو جائے اور دنیا ان کے ناکارگی اور نکما پن کا تماشہ دیکھے۔

 

6-    فلسطین میں جہاد اور فلسطینیوں کی امداد ایک شرعی فریضہ اور ایک اسلامی اور انسانی ذمہ داری ہے، اسلامی قانون کے مطابق جارحیت کے بارے میں خاموش رہنا اور اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا اور دشمنوں کو حکمراں حکومتوں اور سرکاری فوجوں کی نقل و حرکت کے ذریعے  پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کرنا ، اور غزہ، اقصیٰ، یروشلم اور فلسطین کو فنا و بربادی کے لیے چھوڑ دینا حرام اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے اور کبائر میں سے کبیرہ اور سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ .

 

انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی کی طرف سے جاری کیا گیا۔

 

10/31/2023 = 04/16/1445

 


: ٹیگز



بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں