قابض اسرائیل کے وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کے حوالے سے اتحادِ عالمی کی اجتہاد و فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین و علی آلہ وصحبہ اجمعین
فتویٰ (4) انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ
مورخہ :24 ربیع الثانی 1445 بروز بدھ، 8 نومبر 2023
فلسطین کی بابرکت سرزمین پر مسلمانوں اور غاصب صہیونی دشمن اسرائیل کے درمیان 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی شدید جنگ نے پوری قوم کو اپنے پاس موجود ہر چیز کے ساتھ ایک ایسا جامع جہاد کرنے کا پابند کیا ہے جو لڑنے والے دشمن کی طاقت کو توڑ دے۔اس کے زور کو کم کردے، اس کی مالیت کو نقصان پہنچائے. خاص طور پر چونکہ فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے، اور مسلمانوں کی سرزمین ایک ہے لہٰذا اور اس کا کسی ایک انچ پر بھی قبضہ کیا جائے وہ تمام مسلمانوں کی زمیں پر قبضہ شمار کیا جائے گا. ایک کے دفاع کا فریضہ پہلے مسلمان، پھر پہلے، اور قریب ترین، پھر قریب ترین،پر عائد ہوتا ہے. قابض کو شکست دے کر اس انچ کو آزاد کرانا ان سب پر لازم ہے، تمام مسلمانوں اور ان کی اشرافیہ، ان کے حکمرانوں اور ان کے ذمہ داروں میں مشترک ہے، ایک ایسی قسم ہے جو سب کے لیے آسان اور دستیاب ہے، وہ ہے دشمن کا جامع بائیکاٹ ۔
ان حالات میں صہیونی دشمن اور اس کی مدد کرنے والوں کا بائیکاٹ درج ذیل دلائل کی بنا پر شرعی طور پر واجب ہے۔
پہلا: جامع بائیکاٹ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی اجازت شریعت اسلامیہ نے دی ہے۔ عظیم صحابی رسول حضرت ثمامہ بن اثال جب اسلام قبول کر کے مکہ آئے تو کسی نے ان سے کہا: "تم تو بد دین ہوگئے. صابی ہو گئے!" انہوں نے کہا: نہیں، لیکن میں نے محمد کے ہاتھوں پر میں نے اسلام قبول کیا، اور ، خدا کی قسم یمامہ سے تمہارے کے پاس گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا. جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی منظوری نہ دے دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تائید فرمائی
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾ [التوبة: 120]
یہ اس لیے کہ انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے اور جہاں ایسی جگہ قدم رکھتے ہیں جس سے کافروں کو غیظ(غصہ) آئے اور جو کچھ کسی دشمن کا بگاڑتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے بےشک اللہ نیکوں کا نیک(اَجر وانعام) ضائع نہیں کرتا
نیز اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو گناہ اور جارحیت میں تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے، بلاشبہ دشمن اور اس کے ہمنوا ممالک اور اداروں کے مصنوعات اور ان کے تیار کردہ سامان کی خرید و فروخت اور اس کی ترویج ان کی قوت میں اضافہ کرتی ہے اور ظلم اور جارحیت میں ان کی مدد کرتی ہے۔
جب کہ دشمن کے مصنوعات کا بائیکاٹ دشمن کو کمزور کرتا ہے، اور اسے سیاسی، مالی، اقتصادی اور عسکری طور پر کمزور کرتا ہے اس پر عوامی سطح پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ ہے اور اس کے جامع مفادات کی تکمیل کی راہیں مسدود کرتا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ [التوبة: 73]
اے (نبی) کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور ان پر سختی فرماؤ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے. وہ کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے!
نیز خداتعالیٰ نے یہودیوں کے بارے میں فرمایا جب انہوں نے اپنے عہد کو توڑ دیا تھا کہ : مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾ [الحشر: 5] ’’تم جس نرم چیز کو کاٹ دو، یا اس کی جڑوں پر قائم رہنے دو، وہ اللہ کے حکم سے ہے اور تاکہ اللہ تعالٰی فاسقوں کو رسوا کردے
ا :دوم:: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے جارح دشمنوں کے ساتھ اپنی جان، مال اور اپنی زبان سے جہاد کریں ۔ ( ابوداؤد)
اسی طرح خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو گناہ اور جارحیت میں تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن اور اس کے معاونین کے سامان کی خرید و فروخت اور اس کی ترویج ان کی قوت میں اضافہ کرتی ہے اور گناہ اور جارحیت میں مدد کرتی ہے۔
ارشاد ربانی ہے :وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ [المائدة: 2]
اور پرہیزگاری کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو، لیکن گناہ اور زیادتی کے کام ی میں تعاون نہ کرو،اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے.
سوم:
جامع بائیکاٹ کا مطلب یہ ہے کہ تمام شعبہ حیات میں دشمن کا مقاطعہ کیا جائے ، پوری امت مسلمہ کی طرف سے دشمن کا جامع بائیکاٹ ایک شرعی جہاد ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو تمام لوگوں کے لیے آسان اور قابل رسائی ہے۔ فقہی قاعدہ: الميسور لا يسقط بالمعسور".،کے مطابق: "جو آسان ہے وہ مشکل کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا ۔" شرعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ وسائل کے بھی وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہوتے ہیں اور چونکہ دشمن کو کمزور کرنا مقصود ہے، اس لیے اس کے حصول کے لیے ہر جائز ذریعہ بشمول بائیکاٹ کے ذرائع کے شرعی طور پر واجب ہے اور حقیقت اور تاریخ نے اس کے نمایاں اور دور رس اثرات کو ثابت کیا ہے۔
چہارم : شریعت کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ دشمن کو منظم طور پر کمزور کیا جائے تاکہ وہ امت مسلمہ پر شر کو مسلط کرنے سے باز آجائے۔
پنجم : ان دنوں غزہ پر قابض اسرائیلی فوج کی جارحیت خود اس کے ساتھ تمام معاہدوں اور اور قراردادوں کی خلاف ورزی ہے -( اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ معاہدے درست تھے) ۔ کیونکہ اسرائیل نے اپنے ان ظالمانہ اقدامات سے خود ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے، سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں عبادت گذار مرد خواتین کے خلاف اپنے وحشیانہ طرز عمل سے، اور غزہ میں وحشیانہ قتل عام اور پورے یروشلم اور باقی علاقوں میں کیے گئے اپنے اقدامات کے ذریعے۔ اس لیے قابض دشمن کے ساتھ جن مسلم ممالک کے باضابطہ تعلقات قائم ہیں ان پر خاص طور پر اسرائیل کے بائیکاٹ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے. کیونکہ مسلمانوں کا "ذمہ" ایک ہے۔ لہذا فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کرنا ان پر فرض ہے.
جس بائیکاٹ، کے تعلق سے ہم فتویٰ جاری کررہے اس کے تقاضے مندرجہ ذیل ہیں :
سیاسی، سفارتی، اقتصادی، میڈیا، سیاحت، تعلیمی، کھیل اور دیگر امور میں مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا؛ اس طور پر کہ جس سے دشمن کمزور ہوسکے ۔ اسلامی ممالک اور عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دشمن سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کریں۔
آخر میں، ہم اس سیاسی اور عوامی موقف کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ، اور ہم اسلامی دنیا کے ہر متعلقہ فریق سے بائیکاٹ کی اس مثالی کردار کی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر نوجوانوں، میڈیا کے پیشہ ور افراد اور اہل قلم اور اہل رائے مفکرین سے بھی گذارش کرتے ہیں۔ کہ وہ اس سلسلے میں اپنا ملی صحافتی فریضہ ادا کریں۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین.
جاری کردہ :
لجنة الاجتهاد والفتوى بالاتحاد العالمي لعلماء المسلمين.