غزہ: ناصر کمپلیکس میں ایندھن ختم ہونے سے نوزائیدہ بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس میں واقع ناصر میڈیکل کمپلیکس میں ایندھن کی کمی سے نوزائیدہ بچوں، مریضوں اور عام طور پر زخمیوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
’ایم ایس ایف‘ کی طرف سے یہ وارننگ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قابض اسرائیل نے غزہ کے تمام ہسپتالوں تک ایندھن اور دیگر بنیادی سامان کی رسائی کو روک دیا ہے، اس جنگ کے آغاز کے بعد سے اس کی فوجوں نے 15 ماہ سے زیادہ عرصہ قبل اس پٹی پر سخت محاصرے کا آغاز کیا تھا۔
ہسپتالوں تک ایندھن کو پہنچنے سے روکنا کوئی نئی بات نہیں۔ قابض دشمن غزہ میں دانستہ طور پر صحت کے نظام کو نشانہ بنا رہا ہے جو کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر کر رہا ہے۔
غزہ کے 3 ہسپتالوں کا ایندھن ختم ہو رہا ہے۔ جلد ہی مریض بجلی سے محروم ہوں گے۔ اس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کا مکینیکل وینٹیلیشن سے علاج کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بتایا کہ ناصر میڈیکل کمپلیکس کو صرف ایندھن کی کمی کی وجہ سے کام روکنے کا خطرہ نہیں ہے بلکہ وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلح میں واقع الاقصی شہداء ہسپتال اور غزہ کے یورپی ہسپتال کے قریب واقع ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ معاملہ سینکڑوں مریضوں کی زندگیوں کے لیے خطرے کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں نومولود بچے بھی شامل ہیں جو زندہ رہنے کے لیے بجلی پر انحصار کرتے ہیں۔ بجلی جنریٹروں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے جن کو چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ انتباہ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک بیان میں آیا ہے، جس میں غزہ کی پٹی میں صحت کی صورتحال پر تبصرہ کیا گیا ہے جہاں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک شدید ناکہ بندی اور تباہ کن جنگ کا شکار ہے۔