بحث وتحقیق

تفصیلات

کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت کے بارے میں اتحاد عالمی کی فقہ اور فتویٰ کمیٹی کا جاری کردہ فیصلہ .

کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت کے بارے میں اتحاد عالمی کی فقہ اور فتویٰ کمیٹی کا جاری کردہ فیصلہ . 

کمپنی کے حصص کی ڈیلنگ (خرید و فروخت) سے متعلق اتحادِ عالمی برائے مسلم اسکالرز کی اجتہاد و فتویٰ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ. 1444ھ قرارداد نمبر (2)

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں؛ جو تمام جہانوں کا رب ہے، اور درود و سلام اس ذات اقدس پر جو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اورتمام انبیاء و رسولوں پر ، ان کے اہل و عیال اور  ان کے صحابہ پر اورقیامت تک ان کی ہدایت پر چلنے والوں پر۔ 
اما بعد! 

فقہ و فتویٰ کمیٹی نے 2/5/1444 ہجری بمطابق 11/26/2022 کو اپنے دوسرے اجلاس میں کارپوریٹ شیئرز کے معاملے پر غور و خوض کیا ۔

جس میں ایک تفصیلی تحقیق پیش کی گئی؛ جس میں اس سلسلے میں جاری ہونے والے فقہ اکیڈمیوں کے فیصلوں اور اس موضوع پر شرعی معیارات سے متعلق تفصیلات شامل تھیں.
 اس سلسلے میں مکمل غور وفکر کے بعد کمیٹی درج ذیل نتیجے تک پہنچی:
اول: اول یہ کہ کمیٹی نے بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی کے اس فیصلے (قرارداد نمبر 23 (1/7)کی توثیق کی.  کہ ایسی مشترکہ شیر کمپنیوں کا قیام جو جائز مقاصد اور سرگرمیوں پر مبنی ہوں جائز ہے. 
 اور یہ کہ "محل متعاقد علیہ" حصص کی بیع میں کمپنی کے اثاثوں کا مشترکہ حصہ ہے۔ اور شیئر سرٹیفکیٹ اس حصص کے حق کی دستاویز ہے۔ فقہ و افتاء کمیٹی تجویز کے اس حصے کی بھی تصدیق کرتی ہے. جس میں جواز کی یہ شرط رکھی گئی ہے کہ کمپنی کی ذمہ داری اس کے سرمائے تک محدود ہوگی. 

دوم: دوم یہ کہ حصص کی خرید و فروخت  میں حکم کے لحاظ سے تین اقسام  ہیں:
1- جائز سرگرمیاں انجام دینے والی کمپنیوں کے حصص جو درحقیقت اسلامی شریعت کی دفعات کے پابند ہوں، اور ان کی خلاف ورزی نہ کریں، اس قسم کی کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت کرنا اور اس طرح کی کمپنیوں سے تجارت کرنا فی نفسہ جائز ہے؛ اگر اس سلسلے کوئی دیگر قانونی رکاوٹ نہ ہو۔

2-ایسی کمپنیوں کے حصص جن کی بنیادی سرگرمیاں شرعاً ممنوع ہوں ، جیسے کہ سود کے معاملات کرنے والے بینک، شراب اور منشیات کی تجارت کرنے والی کمپنیاں، اس قسم کی کمپنیوں میں حصہ لینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں تجارت کرنااور ان کے حصص کی خرید و فروخت کرنا درست ہے 
3- ایسی کمپنیوں کے حصص جن کی سرگرمیاں بنیادی طور پر حلال ہیں، لیکن اس میں کچھ ممنوعات جیسے سود کی آمیزش ہے۔ اس صورت میں علماء و فقہاء کا اختلاف ہے. بعض اہل علم اسے مطلقاً ناجائز قرار دیتے ہیں؛ اور بعض اہل علم نے اس کی چند لازمی شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے. مثلاً :شرعی مجلس برائے مالیاتی امور کے دفعہ نمبر (21)میں اس کی وضاحت ہے. 
فقہ و فتوی کمیٹی ان اصولوں کی درج ذیل دفعات کی توثیق اور تصدیق کرتی ہے:
3/4 ان کمپنیوں کے حصص میں شراکت یا لین دین (سرمایہ کاری اور تجارت) جن کی اصل حلال ہے، لیکن وہ سود کے ساتھ قرضے فراہم کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں 
اصول یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے حصص میں مشارکت اور سرمایہ کاری یا تجارت کرنا حرام ہے؛ جو بعض اوقات سود یا اس جیسی ممنوع چیزوں کا معاملہ کرتی ہیں؛ اگرچہ ان کی سرگرمیاں بنیادی طور پر جائز ہوں ۔ 
اس حکم سے درج ذیل شرائط کے ساتھ مالی معاملات اور لین دین کا استثناء ہے :

3/4/1 - کمپنی کے بنیادی نظام اور دستوری مقاصد میں  سودی معاملات ، یا حرام چیزوں جیسے: خنزیر کے گوشت کا کاروبار اور اس جیسی چیزوں سے کاروبار شامل نہ ہو ۔

3/4/2 - سود پر دی گئی کل رقم، چاہے وہ طویل مدتی قرض ہو یا قلیل مدتی قرض، کمپنی کے کل حصص کے(Market Cap)کے 30% تک نہیں پہنچنی چاہیے، اس امر کی وضاحت کے ساتھ  کہ سود پر قرض لینا  ممنوع ہے. 
3/4/3 - سود کے ساتھ جمع کی گئی کل رقم، چاہے ڈپازٹ کی مدت مختصر ہو، درمیانی ہو یا طویل ہو ، کمپنی کے کل حصص کی مارکیٹ ویلیو کے 30% تک نہیں پہنچنی چاہیے، اس امر کی وضاحت کے ساتھ کہ سود پر قرض دینا ممنوع ہے، 
3/4/4 - کسی ممنوعہ چیز سے حاصل ہونے والی آمدنی کمپنی کی کل آمدنی کے 5% سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، چاہے یہ آمدنی کسی ممنوعہ سرگرمی کی انجام دہی سے حاصل ہو یا کسی حرام چیز کی ملکیت سے۔ اگر کچھ محصولات ایسے ہوں جن کی جہت ظاہر نہ ہو تو اسے جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں احتیاط برتنی چاہیے۔

 3/4/5 ان فیصدوں کا تعین تازہ ترین بجٹ یا آڈٹ شدہ مالی پوزیشن پر مبنی ہونا چاہیے۔

 3/4/6 حرام آمدنی جو ان کمپنیوں کے ریٹرن کے ساتھ مل جاتی ہے. اس حرام آمدنی کو درج ذیل طریقے کے مطابق تصرف کرنا ضروری ہے :
3/4/6/1 - حرام آمدنی - چاہے وہ حرام سرگرمی سے حاصل ہو؛ یا حرام ملکیت سے ، یا سود کے نتیجے میں حاصل ہو - حصص کے مالک پر لازم ہے کہ وہ مالیاتی مدت کے اختتام تک اس سے چھٹکارا حاصل کرلے ، چاہے وہ سرمایہ کار ہو یا تاجر ہو. 
  اس سلسلے میں حتمی مالیاتی گوشوارے جاری کیے جانے پر اس میں تصرف کرنا ضروری ہے ۔ چاہے وہ سہ ماہی ہو، سالانہ ہو یا کوئی اور شکل ہو. 
لہذا جس شخص نے مالیاتی مدت سے پہلے حصص فروخت کر دیے ہوں ، ان کے لیے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

3/4/6/2 - چھٹکارا حاصل کرنے کا محل   حرام آمدنی  سے  وابستہ شیر ہے، چاہے انٹرسٹ کی تقسیم ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو. اسی طرح برابر ہے کہ کمپنی کو نفع حاصل ہوا ہو یا نقصان ہوا ہو. 
3/4/6/3 بروکر، ایجنٹ یا مینیجر اپنے کمیشن یا اجرت کے کچھ حصے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا پابند نہیں ہے ۔  جو کام انہوں نے کیا ہے. اس پر ملنے والی اجرت ان کا حق ہے. 
3/4/6/4 - جس چیز سے گاہک کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا لازمی ہے. اس کی تکمیل اس طور پر بھی ہوسکتی ہے کہ کمپنی کی کل حرام آمدنی کو تقسیم کردیا جائے جس کے حصص کے ساتھ وہ اس کمپنی کے ساتھ لین دین کرتا ہے، اس طور پر مجموعی حصص کا تناسب نکالا جاسکتا ہے اور پھر نتیجہ کو اس گاہک کی ملکیت والے حصص کی تعداد سے ضرب کیا جائے  - چاہے کوئی فرد ہو یا ادارہ ہو یا فنڈ ہو یا کچھ اور - اور جو نتیجہ نکلے وہی وہ رقم ہوگی جس سے چھٹکارا حاصل کرنا لازمی ہے۔

3/4/6/5 - کسی بھی طرح سے بھی حرام چیزوں کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے - اور اس میں حیلے اختیار کرنا بھی درست نہیں ہے. یہاں تک کہ اس رقم سے ٹیکس ادا کرنا بھی درست نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے. 

3/4/6/6 - خیراتی کاموں  کے لیے حرام آمدنی کو صرف کرنے کی ذمہ داری کمپنی پر اس وقت عائد ہوتی ہے اگر وہ اس سرمایہ کے ساتھ اپنے لیے تجارت کرتی ہے یا اس کا انتظام کرتی ہے ، لیکن اگر کمپنی محض ایک ثالث کا رول ادا کررہی ہو؛ تو اسے حرام آمدنی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں گاہک کو مطلع کرنا چاہیے تاکہ وہ خود یہ کام کر سکے، البتہ کمپنی یہ خدمت ان صارفین کے لیے بالمعاوضہ یا بلا معاوضہ (جو ممکن ہو) فراہم کرسکتی ہے. 

3/4/7 - کمپنی مذکورہ بالا ضوابط کو نافذ کرنے کی پابند ہے . چاہے وہ اسے خود انجام دے یا دوسروں کے ذریعے انجام دلوائے ، اور چاہے یہ ڈیلنگ اپنے لیے ہو یا دوسروں کے لیے بطور نمائندہ کے یا مال کے انتظام و انصرام کے ضمن میں. جیسے مالیاتی فنڈ میں ہوتا ہے یا دوسرے کی طرف سے وکالتا ہو. 

3/4/8 ان ضوابط کی پابندی، شرکت یا ڈیلنگ کی پوری مدت کے دوران لازمی ہے. اگر ان ضوابط پر عملدرآمد نہ ہورہا ہو؛ تو اس کاروبار سے نکل جانا لازمی ہے. 

سوم : حصص کے مراحل اور ان کی شرائط:

حصص میں کئی مراحل ہوتے ہیں جس طرح سٹاک کمپنی کے کئی مراحل ہوتے ہیں 

پہلا مرحلہ کمپنی کا قیام ہے ، کیونکہ اس کے بانی ہی "شرکت عنان" میں شریک ہیں، "شرکت عنان" کی اصطلاح اسلامی فقہ میں معروف ہے۔ تاہم، کمپنی قانونی طور پر اس وقت تک قائم نہیں ہوتی؛ جب تک کہ قانونی شرائط کی تکمیل نہ ہو.. جب یہ ہوجاتا ہے تو ولی امر(ذمہ دار اعلیٰ) کو اس کی تنظیم کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے ۔ 
اس کمپنی کے قائم کرنے والے شرکاء جو بھی رقم اس کمپنی میں لگاتے ہیں؛ اسے بنکنگ کے قوانین کے مطابق ہی فروخت  کیا جا سکتا، لیکن اگر یہ جائیداد اور مالی حقوق ہوں؛ تو اسے فروخت کرنا جائز ہے۔
دوسرا مرحلہ: رکنیت :

سبسکرپشن (رکنیت) طلب کرنا درحقیقت شرکت کی دعوت ہے، اور یہ ایک عوامی پیشکش ہے؛ جس کی کمپنی پابند نہیں ہے؛ الا یہ کہ وہ کمپنی کی طرف سے شرائط اور کنٹرول کے لحاظ سے مقرر کردہ حدود کے اندرہو. 
لہذا سبسکرائبر کمپنی کے کاغذات  پر جو دستخط دستخط کرتا ہے وہ در حقیقت کمپنی کی شرائط کو قبول کرنے کے مترادف ہے، اور اس وجہ سے، جو سبسکرپشن کی فیصد سے زیادہ ہے، کمپنی  اسے قبول کرنے کی پابند نہیں ہے ، بلکہ وہ سبسکرائب شدہ سرمائے کی حدود کے اندر پابند ہے. 

اس مرحلے کے اصول:

اس مرحلے پر حصص میں تصرف کا حکم حصص کے مختص ہونے یا نہ ہونے کے معاملے سے مختلف ہے۔

ج - حصص کی غیر مختص ہونے کے مرحلے میں،اسے فروخت کرنا بالکل جائز نہیں ہے، کیونکہ مختص کردہ حصص کی تعداد معلوم نہیں ہے، بلکہ ممکنہ حصص سبسکرائبر کی ملکیت نہیں ہیں۔
 حصص مختص کرنے کے بعد، ان پر؛ ان سابقہ ​​قوانین کا اطلاق ہوگا؛ جس پر کمپنی کی بنیاد رکھی گئی تھی. لیکن قانون کے مطابق، انہیں فروخت نہیں کیا جا سکتا؛ سوائے اس کے کہ وہ سٹاک ایکسچینج میں داخل ہوں۔
فتویٰ کمیٹی کی رائے یہ ہے کہ وہ ضابطے جن کا تعلق کمپنی کے نظم و نسق سے متعلق ہوں ؛ اور کمپنی کے ذمہ دار اعلیٰ کی طرف سے نافذ کیا گیا ہو؛ ان ضوابط کی پابندی شرعا بھی لازمی ہے. 

تیسرا مرحلہ: تیسرا مرحلہ  ؛ رقم جمع کرنے کے بعد اور اس کے جائیداد اور دیگر منافع میں تبدیل ہو نے سے قبل کی حالت ہے. 

اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلہ نمبر 30 (5/4) کے مطابق اگر فروخت ایک ہی کرنسی میں ہو تو اس  مرحلے میں شرکاء کے لیے اپنے حصص کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے. الا یہ کہ بدلتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر، تبادلے کے جو مسلم ضوابط ہیں اگر وہ اس کے مطابق ہو؛ تو اس کی گنجائش ہے ۔  یعنی "تماثل"  اور مجلس میں قبضہ لازمی ہوگا (جیسے قطری ریال کا تبادلہ قطری ریال کے ساتھ کرنا )۔ 
اور اگر معاملہ دوسری کرنسی میں ہو تو اس میں قبضہ ضروری ہوگا (جیسے ڈالر کی بیع ریال کے عوض )، لیکن ان کو "عروض اور سامان کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے. 
البتہ اگر فراہم کردہ تمام حصص، یا ان میں سے اکثر" اعیان "ہوں یا منافع اور معنوی حقوق ہوں (جہاں قانونی طور پر ، نیز اسلامی فقہ کے مطابق بغیر پیسے کے شرکت کرنا جائز ہے۔ صحیح رائے کے مطابق ) اس وقت فروخت کے عام ضابطہ کے مطابق تجارت کرنا ممنوع نہیں ہوگا ۔

تبادلے (صرف) کے قواعد کےاجراء  کرنے میں کوئی بڑی مشکل نہیں ہے. اس لیے، یہ ایک مختصر اور قابل برداشت مرحلہ ہے، اور زیادہ تر لوگ ان کمپنیوں میں محض ایک یا دو دن کے لیے شمولیت اختیار نہیں کرتے ہیں۔

چوتھا مرحلہ: چوتھا مرحلہ یہ ہے کہ ساری رقم یا زیادہ تر رقم کو رئیل اسٹیٹ، منافع اور معنوی حقوق میں کنورٹ کر لیا گیاہو؛ لیکن تناسب وہی رہا، یعنی نقد یا انفرادی یا اجتماعی قرض کا تناسب ، 50% سے زیادہ نہیں ہوا۔ تو اس صورت میں، اس کی تجارت کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ اثاثوں، منافع اور حقوق کے تحت آتا ہے جو بیچے اور خریدے جاسکتے ہیں، اور ان میں تصرف کیا جاسکتا ہے. جیسا کہ انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی نے اس سلسلے میں فیصلہ نمبر 30 (5/4) جاری کیا ہے۔

پانچواں مرحلہ: پانچواں مرحلہ یہ ہے کہ تمام یا زیادہ تر اشیاء، جائیدادوں اور منافع کو نقد (رقم) یا (قرضوں) میں کنورٹ کرلیا جائے. مرابحہ اور ادھار معاملات کے ذریعے یا قسطوں پر بیع کے ذریعے ، جیسا کہ اسلامی بینکوں میں ہوتا ہے، جہاں جمع شدہ رقم کا بڑا حصہ دیون یا نقود میں منتقل کر لیا جاتا ہے، مشاہدہ ہے کہ ان کے بجٹ کا بڑا حصہ ان دیون پر مشتمل ہوتا ہے جو قرضوں، قسطوں پر بیع اور ادھار بیع، اور کمپنی کے پاس دستیاب رقم کی شکل میں ہوتا ہے . جائیداد اور منافع، معنوی حقوق، تجارتی لائسنس اور گڈ ویل وغیرہ اس پر مستزاد ہیں ، جو کبھی کبھی 30% تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

 اس صورت میں، اگر ہم ان بینکوں اور سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے اثاثوں کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ان تمام چیزوں سے ملتے جلتے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، کبھی ان  کی نقد رقم یا ان کے انفرادی یا اجتماعی قرضے، اثاثوں سے زیادہ ہوسکتے ہیں، لہٰذا ان کا معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا؛ مگر بیعِ نقود یا بیعِ دیون کی شرطوں کے ساتھ. جب کہ یہ شرائط سخت، پیچیدہ ہیں۔

 اگر ہم اس مسئلے کا ایک جامع، معروضی اور جامع نظریہ کے ساتھ جائزہ لیں اور اس کے اجزا کو ایک جامع نظریہ (مقاصد شریعت کی روشنی میں تجزیہ کریں تو ہمیں ان سب کا ایک جامع حل مل جائے گا. 
ایسا اس لیے کہ اجتماعی کوششیں، انفرادی آراء کے مقابلے میں زیادہ اثر رکھتی ہے۔ ( جیسا کہ امام شاطبی نے فرمایا) 
اور اسی وجہ سے فقہی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اکثریت پر حکم لگانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا؛ (باوجودیکہ اکثریت پر حکم لگانے کا فیصلہ فقہی طور پر بھی معتبر ہے ،) اس لیے کہ مالیاتی ادارے جو ادھار کے معاملات کرتے ہیں مثلاً مرابحہ اور استصناع وغیرہ... ان میں سے اکثر کا بجٹ نقود اوران  دیون پر مشتمل ہوتا ہے جو نتیجہ ہوتا ہے ادھار معاملات کا. ان کا مجموعہ 70 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں فقہی کمیٹی نے اس سلسلے میں "اصالت، اور تبعیت" (اصل ہونا، تابع ہو نا) کو راجح قرار دیا. 
اسلامی فقہ میں یہ ایک اہم فقہی قاعدہ ہے، اور اس سے کئی اصول نکلتے ہیں ، اور اس سے متعدد فروعات نکلتی ہیں جو فقہ کے مختلف ابواب میں موجود ہیں ۔
مذکورہ قاعدے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اگر کمپنی میں موجودہ چیزوں کا بنیادی مقصد خود اعیان، منافع یا معنوی حقوق ہوں؛ تو اس کے حصص اس کے چیک، باؤنڈ، یا اس کی فایننسنگ یونٹوں کے ساتھ معاملات کرنا درست ہوگا.( قرض کے تناسب سے قطع نظر کرتے ہوئے.) شرط یہ ہے کہ وہ کمپنی "استثماری" ہو وہ قرضے فراہم کرنے والی اور صرف کے کار وبار کرنے والی نہ ہو. 

کمیٹی نے اس امر کو راجح قرار دیا کہ اصل چیز کمپنی کی وہ سرگرمیاں ، کام اور مقاصد ہیں جن کی کمپنی کے دستور اساسی کے ڈیڈ میں صراحت ہو. 
اگر کمپنی کا مقصد اور سرگرمی شریعت کے احکام کی روشنی میں رئیل اسٹیٹ، منافع اور حقوق کی تجارت کے کام کرنا ہے۔ 
 مرابحہ، استصناع اور اجارہ وغیرہ کے کار وبار ہو؛ پھر اس کے نتیجے میں نقد یا قرض ( چاہے اس کا تناسب جتنا کثیر ہو،) اس کے حصص کی تجارت کو متاثر نہیں کرتا،  کام کے شروع ہونے سے یا ختم ہونے کے بعد کے حالات (. تصفیہ کے وقت) اس سے مستثنٰی ہیں 
کیونکہ کاروبار کا عمل ہی اصل اور بامقصد عمل  ہے اور منافع یا نقدی کام تاجرانہ عمل سے حاصل ہونے والے فوائد ہیں؛ جو اصل نہیں بلکہ جو تجارت کے تابع ہیں. 

چھٹا مرحلہ: تصفیہ کا مرحلہ:
 اس مرحلے پر، اگر زیادہ تر اثاثے قرض اور رقم میں تبدیل ہو جائیں، تو ان کی فروخت پر بیع دین اور بیع صرف  کے قوانین نافذ ہوں گے ۔
واللہ اعلم بالصواب 

وصلی اللہ علی النبی وآلہ وصحبہ اجمعین 

  تجاویز ساز کمیٹی کے ارکان:

1- علی قرہ داغی، (چیئرمین) 

2- نورالدین الخادمی، رکن

3- ابراہیم ابو محمد، رکن

4- سلطان الہاشمی، رکن

5- احمد کافی، رکن

6- فریدہ صادق عمر، رکن

7- خالد حنفی، رکن

8- مصطفیٰ دادش، رکن

9- عبداللہ الزبیر، رکن

10- سالم الشیخی، رکن

11- محمد کورمز، رکن

12- مسعود صابری، رکن
_____________
 
1 )) اس سلسلے میں متعدد صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں بخاری، مسلم اور دیگر نے ابوصالح کی سند سے روایت کی ہے، سمعت أبا سعيد الخدري یقول :
الدينار بالدينار، والدرهم بالدرهم مثلاً بمثل، من زاد أو ازداد فقد أربى) وورد بلفظ (لا تبيعوا الذهب بالذهب إلاً مثلاً بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلاّ مثلاً بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا غائباً بحاضر) انظر: صحيح البخاري (2/31) ومسلم (5/42) وسنن النسائي (2/222) والترمذي (1/234) وأحمد (3/4، 51, 61) وإرواء الغليل (5/189)
2 )) یہ مالکیوں کا قول ہے، اور احمد بن حنبل سے ایک روایت ہے ، اور امام اوزاعی اور ابن ابی لیلیٰ کا بھی یہی قول ہے ، دیکھیں: المدوانہ (5/65-66) اور المغنی از ابن قدامہ (5/ 17)

[3] الموفقات الشاطبی (3/192) 
مزید تفصیلات کے لیے ،ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی کے مقالہ کا مطالعہ فرمائیں؛ جو مکہ المکرمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کی اسلامی فقہ اکیڈمی میں پیش کیا گیا ۔


: ٹیگز



التالي
اسلامی تعاون تنظیم مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت جاری رکھے گی: حسین ابراہیم طحہٰ

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں