نئے تعلیمی سال کے آغاز پر عبایا پہن کر آنے پر 300 سے زائد طالبات کو واپس گھر بھیج دیا گیا تھا
پیرس: فرانس کے اسکولوں میں عبایا پر پابندی کو مسلم کمیونیٹی کی جانب سے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا تاہم عدلیہ نے فیصلہ حکومت کے حق میں دیتے ہوئے عبایا پر پابندی کو برقرار رکھا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کی سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں مسلم کمیونیٹی کے وکلاء نے حکومت کے اسکولوں میں عبایا پر پابندی پر حکم امتناع کی درخواست کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے عبایا پہننے پر پابندی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس لیے عدالت فوری طور پر اس پابندی پر اسٹے جاری کرے۔
یہ خبر پڑھیں : فرانس میں عبایا پہن کر آنے والی طالبات اور اساتذہ کو واپس گھر بھیج دیا گیا
مسلمانوں کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سہام زینی نے کہا کہ عبایا پر پابندی مذہب کے ساتھ ساتھ جنسی اور نسلی امتیاز پر بھی مبنی ہے کیوں کہ یہ پابندی صرف لڑکیوں پر ہے اور اس سے عرب کلچر کو ضرب پہنچی ہے۔
فرانسیسی وزارت تعلیم کے وکیل نے کہا کہ عبایا پر پابندی نسلی یا جنسی امتیاز نہیں۔ عبایا دیکھ کر فوراً سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی مسلم خاتون ہیں اور ہم نے ہر اس چیز پر پابندی لگائی ہے جو مذہب کی شناخت ظاہر کرے۔
حکومتی فیصلوں کے خلاف شکایات پر غور کرنے والی فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت کونسل آف اسٹیٹ نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد مسلم کمیونیٹی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ یہ امتیازی سلوک ہے اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمرے میں آتا ہے۔
یاد رہے کہ عبایا پر پابندی کا اعلان اگست کے آخر میں کیا گیا تھا اور 4 ستمبر کو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکول آنے والی کئی طالبات کو عبایا پہن کر آنے پر واپس گھر بھیج دیا گیا تھا۔
فرانس میں پہلی بار 2004 میں ایک قانون کے تحت اسکولوں میں مذہبی علامتوں کو نمایاں کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ایسی کوئی بھی چیز پہن کر آنے پر پابندی تھی جس سے مذہب کی شناخت ہوسکتی تھی۔
واضح رہے کہ فرانس کی 67 ملین آبادی میں لگ بھگ 10 فیصد مسلمان شامل ہیں جو اس سے فیصلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔