بحث وتحقیق

تفصیلات

تیونس میں اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن، گرفتاریوں کی نئی لہر.

تیونس میں اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن، گرفتاریوں کی نئی لہر.

 

تیونس میں حزب اختلاف کی جماعت فری ڈیسٹوریئن پارٹی (ایف ڈی ایل) کا کہنا ہے پولیس نے ان کی پارٹی کی رہنما کو صدارتی محل کے باہر سے ہی منگل کی رات کو حراست میں لے لیا۔

ایف ڈی ایل کی سربراہ اور صدر قیس سعید کی سخت ناقد عبیر موسی روآں برس کے اواخر میں متوقع بلدیاتی انتخابات کے خلاف اپیل دائر کرنا چاہتی ہے.

لیکن پارٹی کا کہنا ہے اس کے بجائے انہیں زبردستی ایک کار میں بٹھا کر تیونس کے ایک مضافاتی علاقے میں واقع سکیورٹی کے ایک مرکز لے جایا گیا۔ پارٹی نے مزید بتایا کہ ان کے وکلاء کو بھی ان تک رسائی سے منع کر دیا گیا۔

وکیل نافع لاریبی نے کہا کہ ”جو کچھ ہوا وہ ایوان صدر کے سامنے ایک اغوا کا معاملہ تھا، اور پھر انہیں پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔” تاہم تیونس کی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

موسی مرحوم صدر زین العابدین بن علی کے حامی ہیں، جو ایک ڈکٹیٹر تھے اور جنہیں سن 2011 میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد معزول کر دیا گیا تھا۔

اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی لہر:تیونس میں سن 2021 سے کئی سیاست دانوں، کارکنوں اور خاص طور پر صدر سعید کے ناقدین کو حراست میں لیا گیا ہے۔

اپریل میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت النہضہ کے رہنما راشد غنوشی کو ریاست کی سلامتی کے خلاف اکسانے اور سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور پھر مئی میں انہیں ایک سال قید کی سزا

انہوں نے ہفتے کے اواخر میں حزب اختلاف کی حمایت میں اپوزیشن شخصیات کی گرفتاریوں اور قید کے خلاف تین روزہ بھوک ہڑتال بھی کی۔

سات ماہ سے زائد عرصے سے نظربند حزب اختلاف کی ایک سرکردہ شخصیت جوہر بن مبارک نے بھی گزشتہ ہفتے کھلے عام بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی قید و بند محض سیاسی وجوہات کے سبب ہے۔

تیونس کی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں میں حزب اختلاف کی ریپبلکن پارٹی کے سربراہ عصام شیبی، صدر سعید کے ممتاز نقاد عزالدین ہزغوئی اور شائمہ عیسیٰ اور جوہر بن مبارک جیسے رہنما شامل ہیں۔ موخر الذکر دونوں رہنما تیونس کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ‘نیشنل سالویشن فرنٹ’ کے سرکردہ ارکان ہیں۔

متعدد سیاسی رہنماؤں اور معروف شخصیات نے صدر سعید پر الزام لگایا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے بعد سے اپنے فرامین کے ذریعے حکومت کرنے ساتھ ہی آئین کو دوبارہ لکھنے جیسے اقدامات کر کے بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں۔.

تاہم سعید نے اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیونس کو افراتفری میں پڑنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھے۔ وہ حراست میں لیے گئے افراد کو ”دہشت گرد، غدار اور مجرم” قرار دیتے ہیں۔(ماخذ :ڈی ڈبلیو)


: ٹیگز



التالي
پورے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے:جماعت اسلامی ہند کا پرزور مطالبہ
السابق
اساتذۂ کرام کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں