طوفانِ اقصی کے امید افزا پہلو
فیصل احمد ندوی
دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
[طوفانِ اقصی کے تیسرے دن ۹/ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ہم نے ایک مضمون لکھا تھا بعنوان ’’حماس کی پیش قدمی اور موجودہ جنگ کے متوقع فوائد‘‘ آج اکتالیسواں دن ہے، جنگ جو رخ اختیار کررہی ہے اور جو امید افزا پہلو ظاہر ہورہے ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے متعدد تجزیہ نگاروں نے موجودہ جنگ کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ تحریریں ہماری نظر سے بھی گزریں اور خود ہم نے گہرائی میں اتر کر غور وفکر کیا تو مزید کچھ پہلو سامنے آئے۔ خیال ہوا کہ مسلمان بھائیوں کی خدمت میں ان کو پیش کرنا چاہیے؛ تاکہ مایوسی کے بادل چھٹ جائیں اورامید کی کرنیں انھیں بھی نظرآئیں۔ ]
۷/ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو غزہ کے جیالوں نے غیر متوقع طور پراسرائیل کے قلب پرجو تین طرفہ حملہ کیا، اس سے اس کی چولیں ہل گئیں، اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ فلسطین کے یہ زخم خوردہ، ستم رسیدہ لوگ اتنے نڈر اور جری ہوسکتے ہیں، جن کے پچاس ہزار سے زائد مکانات ڈھاکر لاکھوں لوگوں کو خیموں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، جن کی معیشت کی بنیاد زیتون کے ہزاروں درختوں کو کاٹ کر پوری قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا، جن کی ہمہ وقت نگرانی اورجاسوسی کا جال بچھا کر آزادانہ حرکت وعمل پر پابندی لگائی گئی، جن کے شہر غزہ کو ہر طرف سے محصور کرکے بغیر اجازت آمد ورفت اور درآمد وبرآمد پر روک لگادی گئی؟! غرض اہل غزہ کو ہر طرح سے نہتہ، سراسیمہ، ڈرپوک اور عزم وحوصلے سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی، مگر ان پیہم مصیبتوں نے انھیں پست ہمت اور ناکارہ بنانے کے بجاے جری اور نڈر بنادیا، اور مسلسل آزمایشوں نے انھیں قابل رشک ایمان ویقین کی دولت سے ہم کنار کیا۔
اگر ہم عام خبریں دیکھیں تو مایوسی ہونے لگتی ہے کہ ساڑھے گیارہ ہزار سے زیادہ قیمتی جانیں چلی گئیں، جن میں پھول جیسے بچوں کی بڑی کثرت ہے، نازک اندام خواتین کی بڑی تعداد ہے، تودل پسیجنے لگتا ہے، جودردناک ویڈیو سامنے آرہے ہیں، ان کو دیکھ کر آنکھوں پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے، مگراس سب کے باوجود غزہ والے جس ایمان واستقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس سے عہدصحابہ کی یاد تازہ ہو رہی ہے، اور چودہ سو سالوں بعد قرنِ اول کی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔ صورت حال واقعی دلدوز ہے، اور جو خبریں مغربی میڈیا سے چھن کر آرہی ہیں، ان سے تو اہل غزہ، اہل فلسطین بلکہ عمومی طورپر مسلمانوں کی نکبت وفلاکت ہی ظاہر ہورہی ہے، اور امید کی کوئی کرن نظرنہیں آتی، اور انھی خبروں پر جن کا اعتماد ہے وہ تو مایوسی ہی کا شکار ہیں، لیکن اگر ہم حقیقت حال کا جائزہ لیں اور حالات کا تجزیہ کریں تو اس جنگ کے کئی امید افزا پہلو نظرآتے ہیں، اور اسرائیل کی شکست اور حماس کی فتح صاف ظاہر ہوتی ہے:
۱- اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی عوام اتنے حواس باختہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے، اسرائیلی حکومت کی ساری کارروائیاں اس کی بدحواسی پر دلالت کرتی ہیں، یہ بدحواسی جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے۔
۲- اسرائیلی قبضے کے بعد سے کسی جنگ میں دشمن کی اتنی تعداد نہیں ماری گئی، جتنی اس جنگ میں ماری گئی، ان کی تعداد اب ڈھائی ہزار سےزیادہ ہوچکی ہے، جن میں ایک بڑی تعداد اس کے فوجیوں کی ہے۔
۳- اتنی بڑی تعداد میں دشمن کبھی فلسطینیوں کے قبضے میں نہیں آئے، یعنی دو سو سے زیادہ یہودیوں کو گرفتار کرنے میں حماس کے مجاہدین کامیاب ہوئے، جن میں اکثریت فوجیوں کی اور بڑے بڑے عہدیداروں کی ہے جن میں بڑے بڑے فوجی جنرل بھی شامل ہیں۔
۴- حماس کے حملے سے گھبرا کر نوآبادکاریہودی بڑی تعداد میں اپنے اپنے ملکوں میں جہاں سے آئے تھے واپس جارہے ہیں، بعض حکومتیں مستقبل کے خطرے سے خود ان کو واپس بلارہی ہیں۔ اب تک تقریباً پانچ لاکھ نوآبادکار اسرائیل سے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔
۵- پہلی دفعہ یہ بات جگ ظاہر ہوئی کہ یورپ وامریکہ اوردنیا کے دوسرے حصوں میں آباد یہودی صہیونی عزائم کے خلاف ہیں۔
۶- اس سے بڑھ کر یہ حقیقت پہلی مرتبہ عالم آشکاراہوئی کہ اسرائیلی عوام اپنی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں، وہ وزیراعظم سے سخت نالاں اور ان کو ہٹانے کے درپے ہیں۔
۷- موساد کا بھرم کھل گیا۔ خفیہ معلومات کے حصول میں اس کی چوکسی اور چابک دستی کا جو ہوّا کھڑا کیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا، اس کا جو رعب دلوں میں بٹھایا گیا تھا وہ ہوا ہوگیا، حماس کے نوجوان اس کے مرکزتک پہنچ گئے اور اس کے کئی ٹھکانوں کو تباہ کرکے ان کی گہری سازشوں کو ناکام بنادیا۔
۸- صہیونی فوج جس کے ناقابل شکست ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا اس کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ اسرائیلی فوجی طاقت دنیا کی چوتھی سب سے بڑی طاقت کے طورپرتسلیم کی جاتی تھی مگر اب ......
۹- اسرائیل کی اقتصادی چولیں پوری طرح ہل گئی ہیں، چالیس دنوں سے پورا اسرائیل بند ہے، اسی سے اس کے نقصان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، یعنی کارخانے، فیکٹریاں، کاروباری مراکز، سیاحتی مقامات سب بند،تمام ایرپورٹس بند۔ جتنا بارودی مواد غزہ پر اب تک گرایا گیا ہے، دو سو ارب ڈالر کے قریب اس کا خرچہ ہے، اس کے ٹینک اور گاڑیاں جو تباہ ہوئی ہیں، اس کا نقصان بھی اربوں سے کم نہیں، مرکزی بینک نے جو اربوں کے اثاثے بیچ دیے ہیں وہ اس پر مستزاد۔ اقتصادی ماہرین کے تجزیے کے مطابق دو ارب ڈالر کا یومیہ نقصان ہے۔
۱۰- آج تک اسرئیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی وہ ہوانھیں چلی جو پوری تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں چل رہی ہے، اس سے اسرائیل کو جو نقصان ہو رہا ہے، اس کا صحیح اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے، اس لیے کہ یہ رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے، خدا کرے کہ یہ وقتی نہ ہو، بلکہ اس کو دوام حاصل ہو، تاکہ اسرائیل کو پھر سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔
۱۱- آٹھ لاکھ یہودی گھربارچھوڑ کر رفیوجی بننے پر مجبور ہوئے، اس سے پہلے کبھی یہ صورت حال پیش نہیں آئی۔
۱۲- پوری دنیا میں اسرائیل سے نفرت اور اسرائیلی مظالم کی مذمت پر مظاہرے جو اس وقت سامنے آرہے ہیں، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا، چند بے شرم بے غیرت اور ننگ انسانیت ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا اسرائیل پر لعنت کررہی ہے۔
۱۳- مغرب کے ’’انسانی حقوق‘‘ کی حقیقت طشت ازبام ہوگئی اور سب کو پتا چلا کہ اس سے مراد ان کے اپنے لوگ ہیں، مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں، گویا وہ انسان ہی نہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخیں ہی نہیں بلکہ ان کے جلے اور کٹے جسم کے ٹکڑے بھی ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتے!
۱۴- اقوام متحدہ کی بے بسی سامنے آگئی، اور سب جان گئے کہ اس کے نزدیک یہودی مفاد سب سے مقدم ہے، اور یہودکی منشا کے خلاف وہ حرکت نہیں کرسکتی، جب کہ اس تنظیم کے قیام کا پس منظر جاننے والے ان باتوں سے پہلے سے ہی واقف تھے، مگر اب اس کی حقیقت اس طرح واشگاف ہوچکی ہے کہ ذرا بھی مسلم حکومتوں میں غیرت ہے تو اس کی طرف بنظر امید دیکھنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔
۱۵- سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ۲۰۱۹ء میں فلسطینیوں کو نہتہ اور واجبی حقوق سے دستبردار کرنے کے لیے ’’سنچری ڈیل‘‘ کے نام سے نہایت گہری سازش رچی تھی، اس کی ہوانکل گئی، اور امریکہ نے اسرائیل کواس کے ذریعے جو نہایت حسین خواب دکھایا تھا وہ خواب بکھر کر رہ گیا۔
۱۶- عربی اور اسلامی ممالک تیزی سے اسرائیل کے ساتھ جو تعلقات بڑھا رہے تھے اور بہت خطرہ تھا کہ سنچری ڈیل کا منصوبہ پورا ہوجائے، اس پر بریک لگ گیا۔
۱۷- کسی سفیر کو واپس بھیجنا عالمی سطح پر اس ملک کے موقف کے خلاف شدیداحتجاج سمجھا جاتا ہے، اس وقت متعدد ملکوں نے اسرائیل کے سفیروں کو واپس بھیج کر بڑے پیمانے پر اسرائیل کے خلاف احتجاج درج کیا، ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
۱۸- ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے نام سے تینوں ابراہیمی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اوراسلام) کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اور متحد کرکے ’’وحدت ادیان‘‘ کا جو ایک نیا بیج بویا گیا تھا وہ وہیں سڑگیا۔
۱۹- غزہ کے لوگوں کو سینا میں ڈھکیلنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اور اس پر عمل درآمد کا وقت قریب تھا، اگرطوفان اقصی کی یہ کارروائی نہ ہوتی تو پھر کسی بھی قسم کی مزاحمت کا بھی بظاہر کامیاب ہونا آسان نہ تھا۔
۲۰- مسجد اقصی کی زمانی اور مکانی تقسیم کا منصوبہ بھی بنایا جا چکاتھا، یعنی مسلمانوں کی نمازوں کے علاوہ اوقات میں وہ اس کے مخصوص حصوں پر اپنی عبادت کریں گے، یعنی پھر پوری مسجد پر قبضہ کرکے اس کو ختم کردیں گے اور اس پر ہیکل سلیمانی تعمیر کریں گے اور بہت جلد ان سب کارروائیوں کو انجام دینا طے پاچکا تھا۔
۲۱- اسرائیل کے اندرونی اختلافات سب کے سامنے آگئے، اور نتن یاہو کی عدم مقبولیت کا دوسروں کو پتا چل گیا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ خود فلسطین کے غیر صہیونی یہودی بھی صہیونی منصوبوں کے خلاف اور فلسطینی کاز کے ساتھ ہیں۔
۲۲- مغربی ممالک کے باشندوں کی نگاہوں میں ان کی حکومتوں کی قدر جاتی رہی، جس کا مستقبل قریب میں ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے، نیز ان مظلوموں کے ساتھ عالمی بالخصوص مغربی عوام کی ہمدردی میںاس سے اضافہ ہوسکتا ہے۔
۲۳- اسرائیلی جیلوں میں بند طرح طرح کی آزمایشوں سے گزرنے والے اور مصیبتوں پر مصیبتیں جھیلنے والے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی امید برآئی ہے۔
۲۴- اسلامی تعلیمات میں شدت اور مسلمانوں میں تشدد کا جو ڈھنڈورا پیٹاگیاتھا، اور جو مسلسل پیٹا جاتارہا ہے، اب لوگ اس پر اس طرح کان نہیں دھریں گے۔ یہودی رہا شدہ قیدیوں نے حماس کے مجاہدین کے حسن اخلاق اور نرم خوئی کی جو رودادیں سنائیں، اس سے ان کی بہتر صورت میڈیا کے ذریعے سامنے آئی، والفضل ما شهدت به الأعداء۔ اگر حماس یادوسرے مسلمان ان الزامات سے اپنی برات ثابت کرنے کی کوشش کرتےتو یہ کامیابی حاصل نہ ہوتی،اور یہ دنیا کو معلوم ہوا کہ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔
۲۵- ہزاروں فلسطینی عوام جو کیمپوں میں یا دوسرے ملکوں میں پناہ گزیں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے ملک لوٹنے او راپنے گھر واپس ہونے کے لیے کسی موقع کے انتظار میں تھے، ان کے دلوں میں بہتر مستقبل اور آزاد زندگی گزارنے کی امیدیں جاگ اٹھیں۔
۲۶- طوفانِ اقصی نے مسئلۂ فلسطین کو اسلامی ہی نہیں عالمی سطح پر زندہ کردیا؛ جب کہ اس کو ذہنوں سے محو کرنے کی کوششیں دشمنوں کی طرف سے مسلسل جاری ہیں۔
۲۷- حماس کے علاوہ دیگر فلسطینی عوام میں شوقِ جہاد اور جذبۂ شہادت کی روح دوڑ گئی۔ حدیثوں کے مطابق مستقبل میں وہاں پیش آنے والے حالات کے لیے جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
۲۸- اہلِ غزہ کے ایمان، صبر وثبات، استقامت، توکل علی اللہ اور تقدیر سے رضامندی کے ایسے ایسے نمونے سامنے آئے کہ پوری دنیا کے مسلمان کے ایمان میں یقیناً اضافہ ہوا، او راپنےد ین اور مقدسات کے لیے جاں کی بازی لگانے کا جذبہ عام ہوگیا۔
۲۹- مسلم معاشروں میں جو منافقین ہیں، وہ سامنے آگئے، اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایسے نازک موقعوں پر بھی منافقین کا کردار کیسا منفی ہوتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسی آزمائشیوں کے موقعوں پر منافقین کی چھٹائی کو بڑی کامیابی بلکہ آزمایش کا ایک مقصد قرار دیا ہے۔ وَلِیُمَحِّصَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا(آل عمران: ۱۴۱) مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ (آل عمران: ۱۷۹)
۳۰- آخری بات یہ ہے کہ حماس کے بڑھ کر حملہ کرنے سے وہ حدیث نبوی یاد آگئی جس میں بڑا نیک شگون ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا تھا:الآن نغزوھم ولا یغزوننا یعنی اب ہم ان کی طرف بڑھیں گے وہ ہماری طرف پیش قدمی نہیں کرسکیں گے۔ توحماس کی پیش قدمی اور اسرائیل کی بوکھلاہٹ سے ہم یہ شگون لے سکتے ہیں اور زبان نبوت کے الفاظ دہرسکتے ہیں:الیو م نغزوھم ولا یغزوننا۔ ان شاء اللہ
اخیر میں ہم مسلمان بھائیوں سے کیا چاہتے ہیں۔ جو حالات اس وقت پیش آرہے ہیں ان سے بالکل مایوس نہ ہوں۔ اس سے زیادہ سخت حالات پیش آئیں گے۔ احادیثِ مبارکہ میں ساری تفصیل موجود ہے اور اس کے مطابق ہونا ضروری ہے اور انجام کار مسلمانوں کے حق میں فتح ونصرت ہے۔ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ، اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ، وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اور متعدد آیتیں اس سلسلے میں ہیں۔ آزمایش سے گزرنا ناگزیر ہے اور روشن مستقبل کی یہ علامت ہے۔ اس وقت غزہ کے لوگ جن حالات سے گزررہے ہیں وہ یقیناً تکلیف دہ ہیں۔ ہر قلب دکھی ہے۔ لیکن یہ بھی سوچیے بچوں اور عورتوں کو مارنا انتہائی بزدلی ہے اور اسرائیل کے حواس باختگی کی دلیل ہے۔دوسری طرف حماس کے مجاہدین ہی نہیں غزہ کے عوام میں بھی کوئی بے ہمتی اور شکست خوردگی کا اثر نہیں، ان کا ایمان اللہ اکبر! اتنے سخت حملوں اور مسلسل بم باری کے باوجود حماس کی طاقت نہیں توڑ سکے، گنتی کے مجاہدین ہی مارے گئے ہیں، ان کی قیادت اور عسکری طاقت پوری طرح محفوظ ہے، حماس کے فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار ہے، ان میں سے صرف پانچ ہزار اس وقت میدان میں ہیں، بقیہ پینتیس ہزار اپنی پوری طاقت اور ہتھیاروں کے ساتھ محفوظ مقامات پر ہیں، پانچ سو کلو میٹر سے زیادہ طویل ان کی سرنگیں ہیں۔ اس کے بالمقابل اسرائیل کے سینکڑوں فوجی مارے جاچکے ہیں، ان کے دو سو ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں حماس نے تباہ کی ہیں۔ دیر سویر حماس کی فتح یقینی ہے۔ ہمیں کم سے کم دعاؤں کے ذریعے ان کے ساتھ ہونا چاہیے، اور زبان وقلم کے ذریعے حتی الامکان اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، اورمسجد اقصی کی حفاظت کے لیے جس طرح ہم تعاون کرسکتے ہیں بالکل دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْب۔وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.