بحث وتحقیق

تفصیلات

شہید اور شہادت. مقام ومرتبہ

شہید اور شہادت. مقام ومرتبہ 

تحریر: ڈاکٹر علی محمد الصلابی سیکرٹری جنرل عالمی اتحاد برائے علماء مسلمین 


شہداء کرام وہ مقدس نفوس ہیں جنہوں نے اپنے پاکیزہ خون سے قربانی اور فداکاری اور وفا شعاری کے بہترین نقوش قائم کیے. اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے دی گئیں ان کی قربانیاں لازوال ہوتی ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ان کا اعلیٰ مقام و مرتبہ ہے ۔ وہ درحقیقت زندگی سے محروم نہیں ہوتے بلکہ ان کی قربانی انہیں حیات جاودانی بخشتی ہے، انہیں ایسی پر بہار زندگی ملتی ہے جو مسرتوں، نعمتوں اور رضائے الہی سے بھرپور ہو تی ہے۔ شہداء صبر اور عزت کی علامت ہوتے ہیں.. یہ اللہ کے وہ منتخب بندے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے جنت کے باغات میں ہمیشہ رہنے کے لیے منتخب کیا.. ایں سعادت بزور بازو نیست 

تانبخشد خدائے بخشندہ. 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:((وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۝ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)) "آل عمران: 169-170". “اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔” 

۔ (وہ) اس پر خوش ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اور اپنے پیچھے(رہ جانے والے) اپنے بھائیوں پر بھی خوش ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔


امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے لکہتے ہیں: صحیح مسلم میں آیا ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسموں میں ہوتی ہیں، جو جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں، پھر عرش کے نیچے لٹکتے ہوئے قندیلوں میں واپس آتی ہیں۔ اللہ ان سے پوچھتا ہے: تم کیا چاہتی ہو؟ وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رب، ہم کیا چاہیں گے جبکہ آپ نے ہمیں وہ عطاء کیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں عطا کیا. 

پھر اللہ ان سے دوبارہ دریافت کرتا ہے ، ، تو وہ کہتے ہیں : ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیں تاکہ ہم آپ کی راہ میں لڑیں اور دوبارہ شہید ہوں، کیونکہ یہاں ہم شہادت کے ثواب اور اس کے عظیم اجر کا بذات خود مشاہدہ کررہے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں : میرا فیصلہ  ہے کہ وہ دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر: م1/ص87)


اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے منتخب کرتا ہے، ان کے درجات بلند کرتا ہے اور انہیں اپنی عطاؤں سے نوازتا ہے۔

 شہادت کا مقام بھی ان اعلیٰ مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:((وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا)) "النساء: 69"، “اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اور یہ بہترین رفاقت ہے۔” 

شہید وہ ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا خون اور جان قربان کرتا ہے تاکہ اللہ اسے اس فانی زندگی کے بدلے ایک ابدی زندگی عطا کرے، جو قیامت سے پہلے برزخ میں اور حساب کے بعد جنت میں ہوگی۔ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال و متاع کو خرید لیا ہے ، اور انہیں اس کے عوض میں جنت عطا کرے گا ۔ اللہ فرماتا ہے: ﴿ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾[التوبة: 111 “بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پس اپنے اس سودے پر خوش ہو جاؤ جو تم نے اللہ کے ساتھ کیا ہے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔” (التوبہ: 111)


اللہ نے شہداء کے مقام کو قرآن میں عظیم بتایا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی احادیث میں ان کی عظمت کو بیان کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کو غسل نہیں دیا، اور فرمایا: “احد کے شہداء کو ان کے زخموں اور خون کے ساتھ دفن کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کے زخموں سے خون بہہ رہا ہوگا، خون کا رنگ تو خون ہی کا ہوگا البتہ خوشبو مشک کی ہوگی۔” (النسائی: 1975)


صحیحین اور دیگر کتب میں یہ روایت موجود ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری احد کے دن شہید ہوئے، جابر نے کہا: “جب میرے والد شہید ہوئے تو میں رونے لگا اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مجھے منع کرتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ رلاؤ، فرشتے اس پر اپنے پروں سے سایہ کر رہے ہیں۔” (البخاری: 3771)


شہداء کو قبروں میں آزمائش نہیں دی جاتی۔ راشد بن سعد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کی کہ ایک شخص نے کہا: “یا رسول اللہ، مومنوں کو قبروں میں آزمائش دی جاتی ہے، تو پھر شہید کا استثناء کیوں ؟” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تلواروں کی چمک اس کے سر پر آزمائش کے لیے کافی ہے۔” مقدام بن معد یکرب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ شہید کے لیے اللہ کے ہاں چھ خصوصیات ہیں: اسے پہلی دفعہ میں معاف کر دیا جاتا ہے، وہ جنت میں اپنا مقام دیکھتا ہے، اور اسے جہنم سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ وہ بڑے خوف سے محفوظ رہے گا اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا، اور اسے حور العین میں سے بہتر دو بیویاں دی جائیں گی، اور وہ اپنے ستر رشتہ داروں کی شفاعت کرے گا۔ (الأربعون في فضل الشهادة، حسن قائد، ص21)


شہادت کے فضائل اور شہید کے مقام کے بارے میں بہت سی  آیات کریمہ اور احادیث ہیں ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں، اور یہ سب اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے جو اللہ عزوجل نے شہید کے لیے تیار کیا ہے اور اسے شہادت کے بدلے میں نوازا ہے، یہ بشارتیں اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے ہیں. 


اللہ عزوجل نے شہید کو ایک بلند مقام عطا کیا ہے جو دنیا اور آخرت میں کسی اور مقام سے کم نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان شہداء کو جو اپنی جانیں اللہ کے لیے قربان کر دیتے ہیں، اور اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہیں، اور اللہ کی رضا کے لیے زندگی کو سستا سمجھتے ہیں، بہترین نام اور القاب، بہترین ذکر اور بہترین ابدیت عطا کی ہے۔ اللہ نے ان کے لیے ایک بلند مقام منتخب کیا ہے جو بلندی، عظمت اور اعلیٰ مقام کی مثال ہے، وہ مقام جو صرف انبیاء، مرسلین، شہداء اور اللہ کے منتخب صالح بندوں کو ہی ملتا ہے۔


اس دین کو بلند کرنے اور اس کا پرچم بلند کرنے کے لیے مسلمانوں میں جہادی تیاری اور شہادت کی خواہش ضروری ہے۔ اللہ کی راہ میں شہادت ایک ایسی خواہش ہے جو ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے اور مجاہدین اس کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جہاد اس امت کی روح ہے جو اسلام کا پرچم بلند کرتی ہے 


 جہاد کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنا ہے، اور اللہ کے نزدیک سب سے عزیز مجاہد وہ ہے جو اللہ کے ساتھ سچا ہوتا ہے، اور اللہ اسے اپنے بندوں میں سے شہید کے طور پر منتخب کرتا ہے۔ شہادت ایک انتخاب اور چناؤ ہے جو صرف منتخب اور چنے ہوئے لوگوں کو ملتا ہے، اور یہ ہر مومن کے دل کی عزیز خواہش ہے۔ (أحاديث الشهادة والشهيد، ريان، ص6)


مراجع:


تفسیر ابن کثیر

فضل الشهادة ومنزلة الشهيد، محمد رسلان

الأربعون في فضل الشهادة، حسن قائد، مرکز الفجر للإعلام، 1432ھ

أحاديث الشهادة والشهيد، نزار ريان، رسالة ماستر، الجامعة الأردنية، الشريعة والحقوق والسياسة، 1990م

صحیح البخاری





منسلکات

التالي
اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور غزہ اور لبنان کی حمایت کے لیے
السابق
ترکیہ: القره داغی نے قہرمان مرعش میں تعلیمی اور ثقافتی کمپلیکس کے منصوبے کا معائنہ کیا…

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں