بحث وتحقیق

تفصیلات

قضیہ فلسطین اور عالمی غیرت و حمیت

قضیہ فلسطین اور عالمی غیرت و حمیت

 

 مولانا محمد خالد صدیقی

 

 

   صدر جمعیت علماء نیبال

 

   وفاقی ممبر پارلیمنٹ کا ٹھمنڈو نیپال 

 

 

 

کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان فلسطین اور یہود کے تصادم کی جانب دیکھ رہے ہیں، کس نگاہ سے ؟ رحم و کرم کی نگاہ سے ؟ عدل و انصاف کی نگاہ سے ؟نفرت و حسد اور بغض کی نگاہ سے ؟ انتقام کی شعلہ بار نگاہ سے ؟ یا پھر انسانی غیرت و حمیت کی نگاہ سے؟

 

میں نے اسلامی یا مسلم” غیرت و حمیت   “کا ذکر نہیں کیا ؛ کیوں کہ موجودہ دنیا میں اس کی تلاش و جستجو عبث ، بے کار اور ضیاع وقت ہے ۔  دنیا بھر کے ۵۷/۵۶ مسلم ممالک عالمی طاقتوں سے اس قدر لرزاں ،  ترساں ،  ہراساں  اور حیران و پریشان ہیں کہ انہون نے عالمی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ، مسلم حکمران اور ان کا سارا میکنزم عالمی طاقتوں یاکہہ لیجئے کہ مغربی حکمرانوں کی خوشنودی اور  ان کے چشم و ابرو کے اشاروں پر قربان ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہے ، بعض گوشوں سے  جورد عمل بیان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تجزیہ نگاراسے زبانی”جمع خرچ“ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ،بعض مبصرتو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ ”نورا کشتی“ کی بھونڈی مثال ہے۔

 

شاید مسلم حکمرانوں نے ماضی کی تاریخ بھلا دیا ہے ؛لیکن انہیں امت مسلمہ   ؛ بلکہ اپنے وجود اور تاج و تخت کی بقا کے لئے یہ یاد رکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ  ان کے حقیقی فرماں روا ماضی کی تاریخ کو اپنی یادداشت کی پرت کھرچ کھرچ کر یاد رکھتے ہیں اور اس کی روشنی میں وہ مختصر اور طویل المیعاد منصوبہ سازی کرتے ہیں  ۔  اپنے محدود اور لا محدود ،مختصر اور طویل دورانیہ پر مبنی خاکے تیا ر کرتے ہیں، اس میں رنگ بھرنے کے لئے ان میں کسی نئے رفیق کی ضرورت نہیں پڑتی ،  ان کا بندھوا مزدور دست بدستہ مستعد کھڑا رہتا ہے ۔

 

مسلم دنیا   ؛ بلکہ ہر انصاف پسند فرد کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب صلیبی فوجی کا جنرل گورو شام میں فاتحانہ  داخل ہوا تو اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی مرحوم کی قبر پر لات مار کر کہا تھا ”  صلاح الدین ! اٹھو ! ہم واپس آچکے ہیں “  فرانس کے جنرل الفانسو

 

 نے تو حد کر دی کہ مراکش فتح کرنے کے بعد یوسف بن تاشقین مرحوم کی قبر پر شراب پی  اور  نفرت و بغض کے ساتھ جذبات  کے ساتھ وہیں شب باشی بھی کی  ،  اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ ظاہر ہوتے رہے  اور  امت کے فرماں روا کی ساری صلاحیت صرف اپنی حکومت کی بقاء پر مرکوز  اور منحصر رہی، کاش کہ انہوں نے اپنی دینی و ملی حمیت و غیرت کو زندہ رکھتے ہوئے دفاعی تیاری کی ہوتی، جب امت مسلمہ کے خون سے اس دھرتی کو لہو لہو ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ہمیشہ علامہ اقبال کا یہ شعر  دماغ میں گونجتے ہوئے  کبھی نوک زبان پر  تو کبھی نوک قلم پر آجاتا ہے :

 

تقدیر کے قاضی کا فتوی ہے ازل سے                   ہے      جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

 

امت  مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کا رونا کیا روئیے گا ، یہاں تو اپنے آپ کو مہذب ، متمدن ، انصاف پسند، انسانیت نواز، انسانی حقوق کے علمبردار کہنے والے کو دیکھ کر انسانیت کی پیشانی عرق آلود اور نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ  ؛   اگر ترقی یا فتہ دنیا اسے ہی کہتے ہیں تو اس سے پتھر کا دور ہی غنیمت تھا ۔

 

امریکہ  اور  یورپ نہتے ، بے گناہ ، معصوم ، بے یار و مدد گار ، اپنے ہی گھر میں پناہ گزیں  اور  مقہور و مجبور  پر ظلم و ستم  کی نئی داستانیں رقم کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ غاصب ، ظالم و جابر اور انسانیت کے قاتل اسرائیل سے باز پرس کرنے کے بجائے  اس کو داد و تحسین سے نوازتاہے  اور اس کی وحشت و بربریت اور انسانیت سوز مظالم کو سند جواز فراہم کرتاہے  ،   کہیں کہیں عوامی طور پر احتجاج اور رد عمل کی آواز سنائی دیتی ہے ؛ لیکن عالمی طاقتوں کے لیے یہ احتجاج اور عوامی  رد عمل پانی کے بلبلہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔

 

جو آج دنیا کے مسند نشین ہیں، خیر سے وہ پڑھےلکھے  اور دانشور  کہلاتے ہیں  ،  انسانی تاریخ پہ ان  کی بڑی گہری نظر ہے  ،  وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر عروج کو  زوال ہے ،ہر جوانی کو بڑھاپا ہے اور ہر طاقت و قوت کے فلک بوس  منار کو  ز میں  بوس ہونا ہے  ۔ آج کی نام نہاد ،مہذب اقوام سے پہلے بھی  بہت ساری قومیں  طاقت و قوت کے نشہ سے شرشار ہوکر  اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتی رہی  ہیں ؛ لیکن انسانوں کی اور قوموں کی تاریخ میں زندہ قوم وہی کہی جاتی ہے  جو  عدل و انصاف کو قائم کرتے ہوئے  انسانیت نوازی  کا مظاہرہ کرکے  عفو و  درگزر ،  رحم و کرم  اور  پوری انسانی برادری کے لئے سراپا خیر ہونے کی مثال قائم کرے   ۔  آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسانیت نوازی  اور عدل و انصاف انسانی تاریخ میں آپ کو  آئیڈیل  اور معزز قوم کی شکل میں یاد رکھے جانے کا باعث ہوگا  اور وحشت  و بربریت ، قہر و ظلم ، نا انصافی اور درندگی آپ کی تاریخ کو ایسی ہی شکل میں پیش کرے گی ۔

 

مسلمانوں نے اپنےدور عروج میں انسانیت کے لئے کیا کیا ؟ یہ بڑا عظیم موضوع ہے جس پر بیسویں صدی کی عظیم شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر  “میں تاریخی مواد فراہم کرکے صرف مسلمانون کے لئے نہیں ؛ بلکہ نوع انسانی کے لئے بڑا مفید مواد فراہم کیا ہے ، ہر پڑھنے والے کواس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔

 

آج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس اقتصادی طاقت ہے ، فوجی قوت ہے ، اس کے بل بوتے پر وہ چاہے تو دنیا  میں عد ل و انصاف قایم کرسکتا ہے ،  انسانیت و مروت   اور  شرافت کا بھرم رکھ سکتاہے  ، حقیقی معنوں میں ایک مہذب  ، باوقار ،  شائستہ ، عالمی معاشرہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ۔   بقاء باہم و انسانی حقوق کے لئے مساوی بنیادوں پر شراکت  اور رد عمل کا ایک آئیڈیل بن سکتا ہے : لیکن افسوس یہ ہے کہ ہر ایک ملک اور قوم کے محدود مفاد  نے اس نا م نہاد مہذب دنیا کا وہ حشر کردیا ہے کہ پتھر  کے دور کی یادیں دھندلی ہوجائیں ۔

 

معاشی  اور  فوجی لحاظ سے طاقتور ممالک نے اپنے سے نسبتہ کمزورممالک اور وہاں کے شہر یوں کے ساتھ ماضی میں بھی  جو وحشیا نہ اور غیر انسانی سلوک کیا ہے وہ ناقابل تصور  ہے ، نام نہاد مہذب اقوام نے ظلم و بربریت کے اس تسلسل کو آج بھی پوری  بے شرمی ، بے غیرتی اور ڈھٹائی  کے  ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے ۔

 

ایک شفیق، مہربان اور انسانیت نواز فرد کا دل ، دوسرے کی ذراسی ذہنی و جسمانی تکلیف سے چھلنی ہوجاتا ہے ، یہاں لاکھوں افرد کو بھوکا مارکر، تڑپا کر ،بے سہارا چھوڑکر؛حتی کہ متاع حیات چھین کر بھی  پیشانی پر شکن پیدا نہیں ہوتا ہے ۔

 

کیا اس عالمی برادری کو انسانی برادری کا نام دیا جاسکتا ہے؟  جہاں  ایک معصوم بچہ بھوک سے نیم جان  اور  تڑپ کر ڈاکٹر سے کہتاہے کہ ”کوئی ایسی دوا دیں جس سے مجھے  بھوک  نہ لگے “ جہاں ایک بے سہارا اور بے قصور بچی کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ؛ ”ان مظالم کی میں خدا سے شکایت کردوں گی “    جن ماؤں  کی گود میں بچوں کو سونا، کھیلنا  اور مچلنا چاہئے ،  ان گودوں میں ان  انسانیت نواز طاقتوں کی ”مہربانیوں “  سے وہی بچے لاشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، بوڑھے باپ کا کاندھا ، جو اں سال بیٹے  کے جنازہ کے بوجھ سے جھک جاتا ہے ۔ برسوں کی ان تھک مشقت اور کاوشوں کے بعد ایک نشیمن تیار کیا جاتا ہے  جسے ظلم و وحشت کی بجلی راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے ۔ جہاں مظلوم و مقہور طبقہ صرف نام کے لئے آزاد ہے ؛ لیکن حقیقتہ وہ نسبتہ قدرے وسیع جیل میں قیدیوں کی سی زندگی گھٹ گھٹ کر جی رہا ہے۔  پھر اسی پر بس نہیں کیا جا تا ہے ،  ان دبے ، کچلے، روندےہوئے ،  مجبور و مقہور   اور   بے سہار ا،بے خانماں برباد لوگوںکو دہشت گرد اور ظالم کے خطاب سے نوازا جا تا ہے         ؎              

 

                                  جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

 

فلسطین کا حال دیکھ کہ وہی ہزار ہا سال پرانا پتھر کا دوریاد آتا ہے ، سنا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولہ اسی  زمانے کی ایجاد ہے ؛  سچ بولئے تو یہ فارمولہ موجودہ نام نہاد  ،  مہذب دنیا پر منطبق ہوتا ہے  ،   پتھر کے  دور میں شاید اس قدر کھلی منا فقت  اور دوغلے پن کو عروج حاصل نہیں ہواتھا  ۔ وہ اپنے ظلم و ستم ، وحشت و بربریت ، حیوانیت ، قتل و غارت اور سب و شتم کے لئے انسانیت ، شرافت ، تہذیب اور جدید ترقی کا چولہ نہیں اوڑھتے تھے ۔

 

 فلسطین پر کئی دہائی سے جاری ظلم اور ذہنی ، جسمانی اذیت کا تسلسل بتارہا ہے کہ عالم اسلام کی حیثیت اس وقت  کرہ ارض پر

 

تن مردہ کی سی ہے  : لیکن جو اقوام ”زندہ “ہیں ان میں کیا انسانی غیرت و حمیت اور شرم و حیا کی رمق بھی باقی ہے تو اس کے در پہلو ہیں   :   ایک حکمرانوں کا رویہ ، دوسرے عوامی رویہ یا رد عمل  ! حکمرانوں کے رویہ کی  کہانی فلسطین سے فلسطینیوں کے  انخلاء، اورسرائیل کی تاسیس اور سات دہائی سے جبر اور قہر مسلسل ، لاکھوں اموات ، لاکھوں بے خانمابرباد، لاکھوں زخمی ،  اور  حالیہ غزہ میں  وحشتنا ک نسل کشی کی شکل میں سنا ئی دیتی ہے   :   تاہم کہیں کہیں انہیں ممالک میں،  ان  اقوام میں ، انہیں حکمرانوں کی نا ک کے نیچے  انسانیت  ،  تہذیب  اور  شرافت کی مدھم سی قندیل  دکھائی دیتی ہے  ،  حکمرانوں کی عفریتی طاقت کے سامنے بلاشبہ قندیل ٹمٹما رہی ہے  ؛ لیکن انسان نما حیوانوں کے درمیان آس کی لو جگا رہی ہے کہ شاید قندیل سے قندیل روشن ہو اور دم توڑتی ہوئی انسانیت اس زمیں پر سانس لے سکے.

 


: ٹیگز



التالي
"جنگ اور ایمرجنسی کے دوران خواتین اور بچوں کے حقوق" کے زیر عنوان منعقد کانفرنس میں "خاندانی حقوق کے لیے عالمی اتحاد" کے قیام کا اعلان ۔اتحادِ عالمی کی فعال مشارکت.

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں