تیسری عالمی جنگ کے خلاف بھرپور مزاحمت اور مجاہدین کی استقامت ثابت قدرت کا کرشمہ ہے ۔
تحریر: شیخ ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی.
صدر انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز
جب میں نے غزہ کی جنگ میں حصہ لینے والے طیاروں کی تعداد اور ان کی صلاحیت کے بارے میں الجزیرہ کی ویڈیو رپورٹ دیکھی،تو میں حیران رہ گیا. اس کے مطابق طوفان الاقصی کے بعد کی جنگ براہ راست لڑاکا طیاروں کی تعداد 339 سے زیادہ ہے ،ان کے علاوہ حملہ آور طیارے اور ہیلی کاپٹر اور مختلف 14 اقسام کے ہیں ۔ ان میں وہ جٹ طیارے اور ڈرون بھی شامل ہیں جو حملہ آور ہوتے ہیں ، یا نگرانی کرتے ہیں یا قتل کرتے ہیں، ان میں سے کچھ فوجیوں کے زیر انتظام ہیں، کچھ انتہائی جدید قسم کے ہیں، اور آٹھ قسمیں ایسی ہیں جو فوجیوں کے زیر انتظام نہیں بلکہ وہ کئی دیگر ممالک سے آتے ہیں، جن میں سے کچھ کا تعلق امریکہ، بھارت سے ہے اور کچھ کا دیگر یورپی ممالک ہے ۔
دشمنوں کی غزہ کو نیست نابود کرنے کی پلاننگ
ان تفصیلات کا تعلق فضائی کنٹرول کی سطح سے ہے، جہاں تک اسرائیل کی زمینی اور بحری فوج کا تعلق ہے، تو یہ بھی غیر معمولی اور جدید ترین ہے ، زیادہ تر فعال افواج زمینی، سمندری کاروائی میں حصہ لے رہی ہیں، قابض اسرائیلی فوج کوجدید اسلحہ سازی اور تباہ کن طاقت کے لحاظ سے چوتھی بڑی فوج سمجھا جاتا ہے۔ یہ فوج غزہ کی جنگ میں حصہ لے رہی ہے اور امریکہ ہر طرح سے اس کے ساتھ ہے. امریکہ زمینی، سمندری، فضائی، لاجسٹک، انٹیلی جنس اور دیگر وسائل سے صہیونیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے. اس کے ساتھ برطانیہ بھی پوری طرح سے شریک ہے ۔ ان کے علاوہ کچھ دیگر ممالک جیسے؛ جرمنی، بھارت وغیرہ بھی اسرائیل کی مدد میں پیش پیش ہیں ۔
یہ تمام قوتیں ایک ایسے چھوٹے سے محصور گروہ کو ختم کرنے کے لیے برسر پیکار ہیں جسے اس عرصے میں کوئی لاجسٹک سپورٹ نہیں ملی۔
مزاحمت کی استقامت اور قوم کی بے بسی ۔
یہ مزاحمت کسی بھی عسکری تجزیے سے بالاتر ہے اور اس کی وضاحت صرف قدرت کے خاص کرشمہ، خدائی معجزے اخلاص عمل، عسکری تربیت اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے فدائی جذبہ سے کی جا سکتی ہے. اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے مجاہدین میں سے ہر ایک بلند پہاڑ کی طرح مضبوطی سے کھڑا ہے. جسے تیز ہوائیں اور شدید آندھی بھی ہلا نہیں سکتی ۔
اہل غزہ کی ہر طرح کی قوت اور استقامت کے باوجود غزہ سے باہر امت مسلمہ میں عمومی طور پر نااہلی واضح ہے، مایوسی اور بے بسی نمایاں ہے اور ان کا ردعمل بالکل بھی مطلوبہ سطح پر نہیں ہے،
مجھے جس چیز کا خدشہ ہے وہ اس حدیث نبوی کا اطلاق ہے، جسے امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ اور ابو طلحہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: [ما من امرئ يخذل امرءا مسلما في موضع تنتهك فيه حرمته وينتقص فيه من عرضه إلا خذله الله في موطن يحب فيه نصرته، وما من امرئ ينصر مسلما في موضع ينتقص فيه من عرضه وينتهك من حرمته إلا نصره الله في موطن يحب نصرته].[جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی اس موقع پر مدد نہ کرے اور غیبت کرنے والے کو غیبت سے نہ روکے جہاں اس کی بےحرمتی کی جاتی ہو اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہو، تو اللہ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد نہیں کرے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کو پسند کرتا ہے اور جو مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائی کی اس موقع پر مدد کرے جہاں اس کی بےحرمتی کی جاتی ہو اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد کرے گا جہاں وہ اللہ کی مدد کو پسند کرتا ہے۔]۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*نوٹ: تمام شائع شدہ مضامین ان کے مصنفین کی رائے کی عکاسی کرتے ہیں. انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کا اس سے اتفاق ضروری نہیں ہے ۔