"غزہ کے عوام کی جبری ہجرت سے متعلق ٹرمپ کا بیان فلسطینی مسئلے کو ختم کرنے کے ارادے کو بے نقاب کرتا ہے":القره داغی
عالمی اتحاد برائے مسلم اسکالرز کے صدر، شیخ ڈاکٹر علی محی الدین القره داغی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ (ایکس X) پر اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ "فلسطینی مسئلہ وجود کا مسئلہ ہے، نہ کہ صرف سرحدوں کا۔"
القره داغی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کی طرف اشارہ کیا، جس میں انہوں نے امریکی اختیار کے تحت غزہ پر قبضے کی بات کی۔ القره داغی نے اسے "اقوام متحدہ، بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے تابوت میں آخری کیل" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیان واضح طور پر فلسطینی مسئلے کو ختم کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایک بار پھر طاقت کے ذریعے قبضے کا جواز پیش کیا جا رہا ہے اور جنگل کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
القره داغی نے مزید کہا کہ "اب حقیقت سب پر واضح ہو چکی ہے" اور اس وقت "فیصلہ آزاد دنیا کے ہاتھ میں ہے"، جس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، چین، اور عرب و اسلامی دنیا شامل ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "فلسطینی مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، جو تمام الہامی مذاہب، انسانی قوانین اور اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے۔"
شیخ القره داغی نے عربوں اور مسلمانوں پر زور دیا کہ "شرعی، عقلی، قومی اور وطنی ذمہ داری کے تحت انہیں متحد ہونا چاہیے اور اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالنا چاہیے۔" انہوں نے دوبارہ یاد دلایا کہ "فلسطینی مسئلہ محض سرحدوں کا نہیں، بلکہ بقا اور وجود کا مسئلہ ہے۔"
ٹرمپ کی دھمکیاں اور جبری ہجرت کی مخالفت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر حماس ہفتے کی شام تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرتی، تو وہ "جہنم کے دروازے کھول دے گا۔" تاہم، حماس نے اس کے جواب میں تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 369 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔
اسی حوالے سے اردن نے غزہ کے عوام کی جبری ہجرت کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں، لیکن اس میں کسی بھی فلسطینی کو بے گھر نہیں کیا جائے گا۔ اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے واضح کیا کہ اردن مزید فلسطینی مہاجرین کو قبول نہیں کر سکتا۔
متعدد عرب ممالک نے ٹرمپ کے اس منصوبے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا، جس میں غزہ کو فلسطینیوں سے "پاک" کرکے انہیں اردن اور مصر منتقل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس منصوبے کو قاہرہ اور عمان نے فوری طور پر مسترد کر دیا، جبکہ خطے کے بیشتر ممالک نے اسے عدم استحکام پیدا کرنے والی تجویز قرار دیا۔