- 20/04/2024 | 11:43 AM
- 235
-
مضامین
اہل غـــزہ، کلام الٰہی کے ســچــے عـــاشــق
ایک مجلس میں قرآن سنانے کی تقریب
6 ماہ سے اہل غزہ جس ثابت قدمی اور صبر و تحمل کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد دجالی قوت کے مظالم کو خندہ پیشانی سے سہہ رہے ہیں، اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ انسان بہت کمزور ہے آخر اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، لیکن ایک ایسا آب حیات ہے، جسے پینے کے بعد یہی کمزور انسان فولاد بن جاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی۔ جی ہاں، وہ آب حیات رب کا کلام، قرآن مجید ہے۔ اہل غزہ کا کلام کتاب کے ساتھ جو تعلق ہے، اس کی مثال دنیا کے کسی بھی خطے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اندازہ لگایئے کہ بموں کی برسات، گولیوں کی بوچھاڑ، توپ کے گولوں کی بارش میں بھی وہاں قرآنی حلقے قائم ہیں۔ جس پر ہم گزشتہ کسی نشست میں روشنی ڈال چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب صفوۃ الحفاظ کی محافل بھی منعقد ہونے لگی ہیں۔ صفوۃ الحفاظ اہل غزہ کا ہی طرئہ امتیاز ہے۔ اس نام سے منعقد ہونے والے پروگرامات میں ایک ہی مجلس کے اندر پورا قرآن کریم سنایا جاتا ہے۔ 6 ماہ کی نسل کشی اور وحشیانہ جنگ کے باوجود، ہولناک مظالم سہنے اور قیامت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اہل غزہ کا کتاب الٰہی سے تعلق اور عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ ان کے اس عزم وحوصلہ، صبر وثبات اور برداشت وتحمل کا راز بھی یہی عشق قرآن ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں عاشق قرآن ہیں۔ جمعہ کے روز شمالی غزہ میں 500 بچوں اور بچیوں نے "صفوۃ الحفاظ" پروگرام میں شرکت کی اور ایک ہی مجلس میں پورا قرآن کریم سنانے کا شرف حاصل کیا۔ اس طرح کے پروگرام اہل غزہ کا خاصہ ہیں۔ غزہ سے آنے والا ایک فلسطینی اہل غزہ کے کتاب الٰہی سے عشق اور مضبوط تعلق کا حال یوں بیان کرتا ہے: آپ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ ہم ہر کام میں قرآن کے ذریعے رب کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 16 برس سے ہم مکمل حصار میں مقید کر دیئے گئے ہیں۔ جینے کی تمام راہیں مسدود کردی گئی ہیں۔ ہم نے قرآن سے رجوع کیا تو اس نے بتایا: ”جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کے لئے ہر مشکل سے راہِ نجات عطا کرے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق فراہم کرے گا کہ جو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگی۔“ (الطلاق -۵۶:۲-۳) ہم خود اس کو اور اپنی نسلوں کو قرآن کریم کے زیر سایہ لے آئے۔ دانہ، پانی، دوا، سازو سامان، سب ناپید ہونے لگے۔ قرآن کریم سے پوچھا تو اس نے بتایا: ”خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔“ (الزمر ۹۳:۳۵) ”زمین وآسمان میں چلنے والی کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جس کا رزق خود خدا کے ذمے نہ ہو۔“ (ھود۱۱:۶) اور یہ کہ ”انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ سعی و کوشش کرے گا۔“ (النجم ۳۵:۹۳) ہم نے زیر زمین سرنگوں کے ذریعے سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کی سعی شروع کر دی۔ میلوں لمبی سرنگوں کا پورا جال بچھ گیا۔ تھوڑی سی کوشش میں رب کی اتنی نصرت شامل ہوگئی کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روز مرہ کی کئی اشیا ایسی ہیں کہ جو غزہ میں تقریباً آدھی قیمت میں مل رہی ہیں، جب کہ مصر میں جہاں سے یہ اشیا لائی جا رہی ہیں وہی چیزیں دگنی قیمت میں ملتی ہیں، مثلاً چھوٹا گوشت یا تو ملتا ہی نہیں، ملے تو غزہ میں 30 مصری پونڈ کلو ملتا ہے، جب کہ مصر میں 60 پونڈ میں، غزہ میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کیونکہ نایاب ہے تو قیمت بڑھا دو۔ (یہ حالیہ جنگ سے پہلے کی بات ہے) غزہ میں ایک خدا کا خوف اور ہر دم بیدار قیادت آنے سے فلسطین کی تاریخ میں پہلی بار وہ امن و امان قائم ہوا کہ جس کا ذکر ہم صرف تاریخ میں پڑھتے ہیں۔ کسی نے سوال کیا لیکن اس 90 فٹ گہری زیر زمین فولادی دیوار کا کیا بنا جو ان سرنگوں کو بند کرنے کے لئے مصر اور غزہ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ہے اور اس کے لئے امریکہ سے ایسی آہنی چادریں بھیجوائی گئی تھیں کہ بم بھی جن پر اثر نہ کرسکے؟ کہنے لگا: یہاں ہم نے پھر قرآن کریم سے استفسار کیا۔ قرآن نے جواب دیا: ”ان سے مقابلے کے لئے ہر وہ طاقت فراہم کرو جو تمہارے بس میں ہے۔“ (انفال ۸:۰۶) ہم نے ان فولادی دیواروں کو کاٹنے کے لئے جو کچھ بھی انسانی ذہن میں تدبیر آسکتی تھی، اختیار کی۔ ساتھ ہی ساتھ اس آیت کا ورد اور خدا سے مدد بھی طلب کرتے رہے۔ یقین کیجئے کہ بموں سے بھی نہ کٹ سکنے والی ان چادروں میں بھی ہم اتنے بڑے شگاف ڈالنے میں کامیاب ہوگئے کہ اب وہاں سے گاڑیاں تک گزر سکتی ہیں۔ یہی نہیں قرآن کریم نے ہمیں بتایا: ”ہو سکتا ہے کوئی چیز تمہیں ناپسندیدہ لگ رہی ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر اور باعث خیر ہو۔“ (البقرہ۲:۶۱۲) اس آہنی دیوار سے پہلے ہمارا ایک مسئلہ یہ تھا کہ طویل ہونے کی وجہ سے سرنگیں درمیان سے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ اب ان آہنی اور کنکریٹ کی دیواروں سے انہیں درمیان میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے۔ 90 روز میں مکمل حفظ قرآن کے معجزے کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا: زیادہ بڑی تعداد اب 90 نہیں 40 روز میں پورا قرآن حفظ کرنے لگی ہے۔ اب بچوں کے علاوہ بچیوں اور خواتین کے لئے بھی حفظ قرآن کیمپ لگائے جا رہے ہیں۔ غزہ کی ایک معمر داعیہ صبحیہ کا کہنا ہے کہ: ”ہمارا یقین ہے کہ ہماری نصرت کے تین مطلوبہ ستون ہیں: مسجد، قرآن اور ثابت قدمی۔“ ہماری خواتین صرف رمضان یا جمعہ ہی کو مساجد نہیں جاتیں بلکہ ہفتے میں تین روز عصر سے عشا تک مسجدیں آباد رکھتی ہیں۔ صرف نمازوں کی ادائیگی ہی نہیں کرتیں، ایک مسلسل اور جامع تربیتی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں۔ اس دوران دروس بھی ہوتے ہیں۔ مختلف کورسز بھی اور تربیتی ثقافتی اور تفریحی مقابلے بھی۔ ہماری تربیتی سرگرمیوں میں ہر عمر کی بچیاں اور خواتین شریک ہوتی ہیں، لیکن 10 سے 14 سال کی بچیاں ہماری خصوصی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ صبیحہ کا کہنا تھا ”ہمارا یقین ہے کہ ہم جب تک قرآنی اخلاق سے آراستہ نہیں ہوں گے، آزادی کی نعمت حاصل نہیں کرسکتے۔ دشمن نے بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ وہ اخلاقی بے راہ روی پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے اور ہم قرآن کے سہارے اپنی اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں۔ غزہ میں دار القرآن والسنۃ نے 60 روز کے اندر اندر قرآن کریم حفظ کروانے کا آغاز کیا۔400 بچوں او