بحث وتحقیق

تفصیلات

اتحادِ عالمی کی طرف ممتاز عراقی عالم اور مبلغ محمد احمد الراشد کی وفات پر اظہار تعزیت.

اتحادِ عالمی کی طرف  ممتاز عراقی عالم اور مبلغ  محمد احمد الراشد کی وفات پر اظہار تعزیت. 

مرحوم کا آج منگل کی صبح ملائشیا میں انتقال ہو گیا۔


 قضا وقدر پر  یقین رکھنے والے دلوں کے ساتھ، ہمیں  محترم شیخ، مبلغ اور معلم ابو عمار عبدالمنعم صالح العلی العزی،۔ جو "محمد احمد الراشد" کے نام سے مشہور تھے ان کی آج بروز منگل 23 صفر 1446ھ - 27 اگست 2024ء وفات کی خبر موصول ہوئی... مرحوم ملائیشیا میں طویل زندگی اسلامی دعوت اور روحانی و فکری تعلیم کی خدمت میں گزارنے کے بعد انتقال فرما گئے. انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ .


شیخ محمد احمد الراشد رحمہ اللہ اس دور میں اسلامی دعوت کے میدان کی نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے، اور ان مبلغین اور معلمین میں سے ایک تھے جنہوں نے اسلامی دعوت کو فروغ دینے ، شریعت کے علم کو پھیلانے میں بہت زیادہ اثر ڈالا،  مرحوم اپنی ممتاز تعلیمی فکر اور اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار کے لیے مثالی شہرت رکھتے تھے ، جو ان کی متعدد کتابوں میں واضح ہے جو اسلامی دعوت کے میدان میں مبلغین اور کارکنوں کے لیے ایک حوالہ بنی ہیں۔


 


شیخ کی پرورش اور تعلیم


شیخ محمد احمد الراشد 11 جمادی الآخرۃ 1357ھ بمطابق 8 جولائی 1938ء کو بغداد کے علاقے الادامیہ میں بنی عز قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ایک مذہبی خانوادہ میں آپ کی نشو ونما ہوئی ، انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دار التمیم اسکول سے حاصل کی، جو عراق کے سب سے باوقار اسکولوں میں سے ایک ہے۔ بچپن سے ہی وہ اپنی سنجیدگی اور وقار کی وجہ سے ممتاز تھے، اور وہ علم اور پڑھنے کا غیر معمولی شوق رکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے شعبے کے ممتاز علماء میں سے ایک ہونے کے اہل تھے۔


 


تعلیمی اور دعوتی سرگرمیاں 

شیخ الرشید نے بغداد یونیورسٹی میں قانون کی فیکلٹی میں شامل ہو کر اپنا تعلیمی کیریئر جاری رکھا، جہاں انہوں نے فقہ، وراثت اور تقابلی فقہ کی بنیادوں کا مطالعہ کیا، جہاں سے انہوں نے 1962ء میں فضیلت حاصل کی ۔ انہوں نے عراق کے معروف سلفی علماء سے تعلیم حاصل کی جن میں شیخ عبد الکریم الشیخلی، شیخ تقی الدین ہلالی، شیخ محمد القزلجی الکردی، شیخ امجد الزہاوی اور دیگر علماء شامل ہیں۔ جس نے ان کے تبلیغی اور علمی کیریئر کو کافی متاثر کیا۔


 

۔


شیخ محمد احمد الراشد تبلیغ کی فقہ کی تفہیم اور اس کے  نفاذ کی عملی شکلیں تلاش کرنے میں منفرد تھے، کیونکہ انہوں نے مبلغین کی راہ میں حائل رکاوٹوں جیسے  بے حسی، کمزور منصوبہ بندی، تجربے کی کمی، مبلغین کے درمیان تنازعات، کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے والے تعلیمی اور دعوت کے طریقہ کار کو تیار کرنے میں مہارت حاصل کی، اور  اسے اپنی بہت سی کتابوں اور تحریروں میں ذکر کیا۔


سیاسی اور اسلامی مسائل میں ان کی دلچسپی کم عمری سے شروع ہوئی، کیونکہ وہ تیرہ سال کی عمر میں دعوت کے کام سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے مئی 1953ء میں عراق میں اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی اور شیخ محمد محمود الساف کی فکر اور دعوتی شاعر ولید الاعظمی کی نظموں سے متاثر ہوئے۔ ان کے پاس ایک مربوط دانشورانہ اور دعوتی وژن تھا، انھوں نے  مختلف ممالک کے دورے کیے. جہاں انھوں نے بہت سے اسباق اور کورسز پیش کیے، جس کی وجہ سے وہ مبلغین اور معلمین کے لیے ایک حوالہ بن گئے. 


 


۔


شیخ الراشد نے ایک عظیم علمی میراث چھوڑی ہے،  انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جو دعوت اور اسلامی تعلیم کی فقہ کی اہم ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ان کے نمایاں ترین کاموں میں سے:

دعوت کے مختلف شعبوں کی رہنمائی کے سلسلے میں:: المنطلق، العوائق، الرقائق، صناعة الحياة، المسار، سائل العين، منهجية التربية الدعوية.


علوم شرعیہ میں : دفاع عن أبي هريرة، تهذيب مدارج السالكين، تهذيب العقيدة الطحاوية، الفقه اللاهب، أصول الإفتاء والاجتهاد التطبيقي.


دعوتی فکر اور منصوبہ سازی کے عنوان پر : صحوة العراق، عودة الفجر، رؤى تخطيطية، رمزيات حمساوية. 

نامی کتابیں تصنیف کیں 

انہوں نے رسالہ "المکتومہ" میں بھی بہت سے مضامین شائع کیے اور اسلامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بہت سے لیکچرز پیش کیے۔


 


 عراق سے روانگی


شیخ الراشد 1970 کی دہائی کے اوائل میں سیکورٹی حالات کی وجہ سے عراق چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اور کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے "المجتمع " میگزین میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ پھر وہ امارات، انڈونیشیا، ملائیشیا اور یورپ چلے گئے اور ہر ملک میں شریعت کا علم اور دعوت کی فقہ کو پھیلایا، یہاں تک کہ وہ عالمی سطح پر اسلامی دعوت کے ایک نمایاں عنوان بن گئے ۔


 


شیخ کی رحلت ۔


اللہ تعالیٰ شیخ محمد احمد الراشد پر رحم فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے وہ ایک ایسے عالم دین اور مبلغ و معلم کے لیے نمونہ تھے جنہوں نے دعوت تبلیغ کی فکر کو اپنے دل و دماغ میں آخری ایام تک لے کر رکھا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یارب العالمین ۔





منسلکات

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں