امریکی صدور کی سیکولرازم اور مسلم ممالک کے صدور کی سیکولرازم میں زمین آسمان کا فرق!!!
اور ہمارے عرب اور اسلامی دنیا کے سیکولر حضرات کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر علی محی الدین القره داغی
صدر: عالمی اتحاد برائے علماء مسلمین
دنیا نے حال ہی میں امریکہ کے نئے صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) کی حلف برداری کی تقریب دیکھی۔ اگر آپ اس تقریب کو غیر جانبداری سے دیکھیں، تو یہ مکمل طور پر ایک مذہبی تقریب محسوس ہوتی ہے۔ تقریب کا آغاز چرچ میں عبادات سے ہوا، جہاں صدر نے مذہبی دعاؤں میں شرکت کی اور خدا سے برکت، کامیابی، اور تحفظ کی دعا کی۔
جب ٹرمپ کانگریس میں حلف لینے کے لیے پہنچے تو ان کی اہلیہ کے ہاتھ میں بائبل تھی، جس پر وہ فخر کر رہے تھے۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریب میں ایک پادری نے صدر کے حلف سے پہلے خطاب کیا، جس کے لباس پر مذہبی علامات درج تھیں، اور حاضرین نے اجتماعی دعا کی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کئی بار مذہبی اصطلاحات استعمال کیں۔ حلف کے بعد اپنی تقریر میں انہوں نے کہا: "رب نے مجھے قتل کی ایک کوشش سے بچایا تاکہ میں امریکہ کو ایک عظیم قوم بنا سکوں"۔
انہوں نے مزید کہا: "ہمیں کبھی خدا کو بھولنا نہیں چاہیے"۔
تقریب کا اختتام بھی دعا، خدا سے مناجات، اور انبیاء کی کہانیاں بیان کرنے پر ہوا۔
یہ سب کچھ امریکہ میں ہوا۔ تو سوال یہ ہے کہ عرب اور اسلامی دنیا کے سیکولر حضرات اس پر کیا کہیں گے؟ اگر یہی سب کچھ کسی عرب یا مسلم ملک کے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں ہوتا، تو کیا ہوتا؟ اگر کوئی مسلم صدر اپنی تقریب کا آغاز کسی مسجد میں شکرانے کی نماز سے کرتا، پھر وہ اور اس کی اہلیہ قرآنِ مجید تھامے حلف اٹھاتے، اپنی تقریر میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ کا حوالہ دیتے، اور اختتام پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھاتے، تو کیا ردعمل ہوتا؟
ہمارے سیکولر حضرات اور مغربی میڈیا اس پر کیا کہتے؟ کیا وہ اس صدر کو مبارکباد دیتے جیسا کہ ٹرمپ کی تقریب پر دیا گیا؟ یا اسے شدت پسند، دہشت گرد، اور رجعت پسند قرار دیا جاتا؟
[...فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ...]
"تو عبرت حاصل کرو، اے بصیرت رکھنے والو"۔