بحث وتحقیق

تفصیلات

ماہ ذی الحجہ: فضیلتیں اور خصوصیات(٤)

عشرہ ذی الحجہ اور کثرت ذکر
    ذکر عربی لفظ ہے، قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے، خود قرآن کریم کو ذکر سے مخاطب کیا گیا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ - (حجر:٩) "ہم ہی نے قرآن اُتارا ہے اور یقیناً ہم خود اس کے نگہبان ہیں" - - عموماً ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا لیا جاتا ہے، اس کی ہستی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا اور اپنے اعمال میں اس کے احکام بجالانا سمجھا جاتا ہے، اسلام میں ذکر الٰہی کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بندہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو خود اللہ رب العزت اسے یاد رکھتا ہے اور ملاء اعلیٰ میں اس کا ذکر کرتا ہے، قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ - (بقرہ: ١٥٢) ’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘ - - اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا کہ اے میرے بندو! میرا ذکر کرو، اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں اس کے بدلے میں تمہارا ذکر کروں گا اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ایک جگہ ذکر الہی کو اطمینان قلب کا باعث بتلایا گیا ہے:اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ - (رعد: ٢٨) "  وہ لوگ جو ایمان لائے اور اﷲ کی یاد سے ان کے قلب کو سکون حاصل ہوتا ہے ، آگاہ ہوجاؤ کہ اﷲ کی یاد ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے". صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَ أنَا مَعَه إِذَا ذَکَرَنِيْ فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُه فِی نَفْسِي، وَ إِنْ ذَکَرَنِی فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِی مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعاً، وَ إِنْ تَقَرَّبْ إِلَيَّ ذِرَاعًا تُقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أتَانِيْ يَمْشِيْ أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً. - - ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھے کسی مجمع کے اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے، تو میں ایک بازو کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں، اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں، اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری: ٦٩٧٠ - صحیح مسلم:٢٦٧٥) امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں ذکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن بسر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے، ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! اسلامی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں، جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لَا يَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِنْ ذِکْرِ اﷲِ. - - ’’تیری زبان ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہنی چاہئے۔‘‘ (سنن ترمذی: ٣٧٧٨) 


     ذکر کا سب سے بہتر طریقہ فرائض کی ادائیگی، پھر نوافل اور ان میں قرآن مجید کی تلاوت ہے، ذکر سے مراد صرف تسبیح گردانی نہیں ہے، ایک طرف جہاں یہ زندگی کے ہر مرحلے میں مطلوب ہے تو وہیں ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ عشرہ ذی الحجہ میں تسبیح و تہلیل اور ذکر کی کثرت کی تلقین بھی نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ۔ (حج: ٢٨) "اور چند مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں" - - ان مقررہ دنوں سے بعض حضرات نے ذوالحجہ کا عشرہ مراد لیا ہے۔ (روح المعانی:١٧/ ١٤٥) نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :مامن ایام اعظم عند اللہ، ولا احب الیہ من العمل فیھن من ھذہ الایام العشر، فاکثروا فیھن من التھلیل، والتکبیر، والتحمید۔ ( مسند احمد: ٥٢٩٤)" کوئی دن بھی اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عظیم اور پسندیدہ نہیں ہے جن میں کوئی عمل کیاجائے، ذی الحجہ کے ان دس دنوں کے مقابلے میں، تم ان دس دنوں مین تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔" ایک  اور روایت میں فرمایا :فاکثروا فیھن التسبیح، والتکبیر، و التھلیل۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی:١٠٩٦٠)" تم ان دس دنوں میں تسبیح، تکبیر اور تہلیل کی کثرت کیا کرو". - - اسی طرح ان ایام میں صرف تسبیح و تہلیل ہی نہیں؛ بلکہ نوافل کا خصوصی اہتمام بھی ضروری؛ کیونکہ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے تقربات کا سب سے زیادہ افضل ترین راستہ ہے، جیسا کہ حدیث قدسی میں مروی ہے: عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا رَفَعَكَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً - - ''اللہ کے آگے کثرت سے سجدہ ریز ہوا کر، اللہ کے آگے تیرے ایک سجدہ کرنے سے اللہ تیرا ایک درجہ بلندکردے گا اور تیری ایک خطا کو مٹا دے گا۔'' (صحیح مسلم: ١٠٩٣) ایک اور اہم روایت یوں مروی ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ". - - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے -" (صحیح بخاری: ٦٥٠٢)

   محمد صابر حسین ندوی


: ٹیگز



السابق
كيا قربانى محرم كے چاند تك جائز ہے؟

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں