بحث وتحقیق

تفصیلات

كيا قربانى محرم كے چاند تك جائز ہے؟

بسم اللّه الرحمن الرحيم 
   كيا قربانى محرم كے چاند تك جائز ہے؟

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

سوال:
  ايك صاحب نے سوال كيا: قربانى كا وقت كب ختم ہوتا ہے؟ كيا قربانى محرم كے چاند تك جائز ہے؟ اور كيا كسى صحيح  حديث ميں  اس طرح كى كوئى بات وارد ہے؟

جواب:
  قربانى كا وقت  كب ختم ہوتا ہے اس كے متعلق اس امت ميں دو رائيں رہى ہيں:
ايك يه كه قربانى كا وقت  بارہويں ذي الحجه كو غروب آفتاب  سے پہلے ختم ہوجاتا ہے، يه مسلك ہے حنفيه مالكيه اور حنابله  كا، اس كى دليل حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنہما كى حديث ہے كه "نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے قربانى كا كا گوشت تين دن كے بعد كهانے سے منع كيا" (مسلم، صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب بيان ما كان من النهي عن أكل) ، قربانى دسويں ذي الحجه كو شروع ہوتى ہے، اس اعتبار سے تين دن ہوں گے دسويں، گيارہويں اور بارہويں ذي الحجه، يعنى لوگ ان دنوں ميں قربانى كريں اور انہيں ميں كهائيں، بعد كے لئے بچا كر نه ركهيں، بچاكر ركهنے كى ممانعت مدينه منوره ميں آئے ہوئے غريبوں كى وجه سے تهى جس كى صراحت موطأ اور مسلم شريف وغيره كى  بعض حديثوں ميں موجود ہے، بعد ميں يه ممانعت منسوخ ہوگئى، امام مالك رحمة الله عليه نے موطأ ميں حضرت عائشه رضي الله عنہا سے نقل كيا ہے كه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:" قربانى تين دن تك كرو"، يه روايت صحيح مسلم ميں بهى ہے۔ 
دوسرى رائے يه ہے كه  قربانى كا وقت تيرہويں ذي الحجه كو غروب سے پہلے ختم ہوتا ہے،  يہى مسلك ہے شافعيه كا اور يه ايك قول ہے حنبلى مسلك ميں بهى، اس كى دليل مسند احمد كى ايك روايت ہے كه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه سارے ايام تشريق قربانى ذبح كرنے كا وقت ہيں،  ايام تشريق گيارہويں بارہويں اور تيرہويں ذي الحجه كو كہتے ہيں، قربانى يوم النحر كو شروع ہوتى ہے، اس طرح ان لوگوں كے نزديك قربانى كے كل چار دن ہيں، يہى رائے ہے امام ابن تيميه، حافظ ابن القيم،  اور علامه شوكانى وغيره كى۔
   اگر كسى عذر كى وجه سے كوئى قربانى كے دنوں ميں قربانى نه كر سكے تو  احناف كے نزديك قربانى كا جانور يا اس كى قيمت صدقه كرے، اور بعض دوسرے ائمه كے نزديك بعد ميں قضاء كى نيت سے قربانى كرے۔

محرم تك قربانى كرنے كى روايت:
  يہى دو رائيں امت ميں معمول بہا رہى ہيں ، امام  ابو داود نے اپنى مراسيل ميں ابان العطار كے واسطه سے    يحيى بن ابى كثير سے، انہوں نے محمد بن ابراہيم تيمى سے، اور انہوں نے حضرت ابو سلمه اور سليمان بن يسار رحمة الله عليهما سے نقل كيا ہے " أنه بلغهما أن رسول الله  صلى الله عليه وسلم قال: الضحايا إلى آخر الشهر لمن أراد أن يستأني ذلك"، يعنى يه دونوں تابعين فرماتے ہيں كه ہمارے علم ميں يه بات  آئى ہے كه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے سستى كرنے والوں كو مہينه كے آخر تك قربانى كى اجازت ديدى، بيہقى كى ايك روايت ميں ہے كه محرم كے چاند تك اجازت ديدى، امام ابن حزم ظاہرى نے يہى قول اختيار كيا ہے۔
  يه روايت نقلا وعقلا نا قابل عمل  ہے:
نقل كے لحاظ اس روايت پر كلام:
  نقلا تو اس لئے كه يه ايك مرسل روايت ہے، يعنى اس ميں يه مذكور نہيں كه يه بات  حضرت ابو سلمه اور سليمان بن يسار رضي الله عنہما كے علم ميں كہاں سے آئى، يه دونوں حضرات تابعى ہيں، انہوں نے خود نبى اكرم صلى الله عليه وسلم سے يه بات نہيں سنى، اس طرح كى حديث كو مرسل كہتے ہيں، جو عام علماء كے نزديك حجت نہيں، اور جو لوگ مراسيل سے استدلال كے قائل ہيں وه بهى متصل السند حديث  كو مرسل پر ترجيح ديتے ہيں،  اوپر حضرت ابن عمر  اور حضرت عائشه رضي الله عنہم كى صحيح حديثيں نقل ہو چكى ہيں، لہذا انہيں ترجيح حاصل ہوگى۔
  دوسرے يه كه يه روايت ابان العطار كى يحيى بن ابى كثير سے ہے،  امام بخارى نے اس سند كو صحيح نہيں مانا ہے، اور امام مسلم نے اسے صرف متابعات وشواہد ميں استعمال كيا ہے، يعنى اس پر اعتماد نہيں كيا ہے۔
  تيسرے يه كه اس روايت ميں سليمان بن يسار سے محمد بن ابراہيم تيمى نقل كرتے ہيں،  اس سند سے حديث كى  چهه كتابوں ميں سے كسى مين كوئى روايت موجود نہيں۔
  چوتهے يه كه اگر حضور صلى الله عليه وسلم نے اجازت دى ہوتى تو كثير الروايات صحابه جيسے حضرت ابو ہريره، حضرت عائشه، حضرت عبد الله بن عمر، حضرت انس، حضرت جابر، حضرت ابو سعيد خدرى، حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص وغيرہم رضي الله عنہم سے ضرور منقول ہوتى، خاص طور سے اس لئے بهى كه قربانى كا معامله تمام مسلمانوں كے لئے اہميت كا حامل ہے، اور اس طرح كے مسائل كى حاجت كثير الوقوع ہے۔
  پانچويں يه كه صحابه وتابعين كے اقوال اور  اہل مدينه كا عمل اس كے خلاف ہے، بلكه خود حضرت ابو سلمه اور سليمان بن يسار رحمة الله عليہما كا عمل اور فتوى بهى اس روايت كى تائيد ميں موجود  نہيں ہے، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے اس مضمون كى ايك كمزور  روايت مسند ميں نقل كرنے كے بعد اس پر تعجب كا اظہار كيا ہے، حافظ ابن كثير نے اپنى تفسير ميں اسے قول غريب كہا ہے۔

عقل كے لحاظ سے اس روايت پر كلام:
  پہلى بات يه كه قربانى حج كے ہدى كا بدل ہے، ہدى كا عمل مزدلفه سے منى ميں آنے كے بعد شروع ہوتا ہے، منى كے ايام دسويں ذي الحجه، گيارہويں اور بارہويں كے دن ہيں، اور اگر كوئى تيرہويں كو رك جائے تو اس كى بهى گنجائش ہے، ظاہر ہے كه قربانى جو بدل ہے اس كے ايام بهى يہى ہوں گے، اس سے زياده نہيں ہوں گے۔
  دوسرے يه كه قربانى كے دنوں ميں روزه ركهنا منع ہے، اسى لئے عام علماء كے نزديك دسويں ذى الحجه سے ليكر تيرہويں تك روزه ركهنا درست نہيں، صحيح مسلم ميں حضرت نبيشه الہذلى رضي الله عنه كى روايت ہے كه الله كے پيغمبر صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تشريق كے دن كهانے، پينے اور الله كى ياد كے دن ہيں، اگر قربانى محرم كے چاند تك ہوتى تو پورے بيس دن روزه ركهنا منع ہوتا، ظاہر ہے كه كوئى اس كا قائل نہيں۔
  تيسرے يه كه جشن كے ايام كو طول دينے ميں بہت حرج ہے، رمضان كے بعد عيد صرف ايك دن يا دون ہے، عرفه كے بعد حاجيوں كے تمام كام تشريق كے دنوں تك ختم ہو جاتے ہيں، قربانى كو مہينه كے آخر تك باقى ركهنے سے پورى امت كو طويل جشن منانے كى ترغيب ہوتى جو اسلام جيسے فطرى وعقلى مذہب ميں ممكن نہيں۔

خلاصه:
  خلاصه يه ہے كه قربانى كے دن يا تو بارہويں ذي الحجه تك ہيں يا پهر تيرہويں ذي الحجه تك، اس كے بعد قربانى كرنے كى كوئى صحيح دليل نہيں ہے،  جو روايت پيش كى جاتى ہے وه نقلا وعقلا مختلف وجوه سے نا قابل عمل ہے، اور سب سے اہم بات يه ہے كه ائمه اربعه بلكه جماہير  امت ميں سے كسى كا عمل يه نہيں رہا كه قربانى محرم تك كى جائے، لہذا سلامتى اسى ميں ہے كه وه بات مانى جائے جس كى دليل مضبوط ہو، اور جو مسلمانوں ميں قرنا بعد قرن اور جيلا بعد جيل معمول به ہو۔


: ٹیگز



التالي
ماہ ذی الحجہ: فضیلتیں اور خصوصیات(٤)
السابق
عید الاضحی: فضائل اور مسائل

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں