بحث وتحقیق

تفصیلات

وما ینطق عن الھوی سے کیا مراد ہے؟

          اگر ایک شخص موید باللہ ہو، اس کا قول و فعل اور تقریر سب کچھ اللہ تعالٰی کی جانب سے طے پاتا ہو، اسے کسی تصرف اور اجتہاد و فکر کا اختیار نہ ہو تو پھر وہ ذات ان کیلئے کیسے نمونہ و اسوہ ہوسکتی ہے جو اپنی فکری اپج، اجتہادی صلاحیت اور عقلی دلائل کا محتاج ہے، جو لمحہ لمحہ چوٹ کھاتا ہو، حق و باطل کے درمیان جب کشمکش ہوتی ہو تو وہ اپنی عقلی و فکری رجحانات کے درمیان غچہ کھا کر رہ جاتا ہو؟ اس میں پہلی ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور دوسری قسم کے خصائص سے مزین عموم انسان مراد ہیں، قرآن مجید نے فرمایا:وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی - (نجم:٣) "نہ اپنی نفسانی خواہش سے کوئی بات کرتے ہیں" - - پھر ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:لَقَدْ کَانَ لَکُمْ  فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا - (احزاب: ٢١) "( اے مسلمانو !) تمہارے لئے اللہ کے پیغمبر کی ذات میں ان لوگوں کے لئے بہترین نمونہ ہے ، جو اللہ کا اور آخرت کا یقین رکھتے ہوں اور اللہ کو خوب یاد کرتے ہوں". غور کرنے کی بات ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سوچنے سمجھنے کا مکلف نہیں بنایا گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکری، تجدیدی، انقلابی، سیاسی، معاشرتی اور معاملاتی زندگی ذکاوت حس اور استنباط و استخراج کی صلاحیت کا کیا؟ بہت سے نابلد اس آیت سے حدیث کی حیثیت اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں آزمائش و ابتلاء میں پڑ جاتے ہیں، اور امت کو فتنہ میں ڈالتے ہیں .... اس موضوع پر بغائر سوچنے کی ضرورت ہے، دوران مطالعہ اکثر سر سری طور پر گزر جاتے ہیں؛ لیکن سائنٹیفک طور پر تجزیہ نہیں کرتے، پڑوس ملک سے طفیل ہاشمی صاحب مدظلہ اسلام آباد نے اپنی ایک تحریر ان اہم نکات پر بات کی ہے، آپ رقمطراز ہیں:
     "ایک جگہ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی  سے یہ استدلال نظر سے گزرا کا آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی ہوتا تھا ۔کیا اس آیت کا تعلق آپ کی گفتگو سے ھے۔اگر ایسا ھے تو میرا اشکال یہ ھے کہ:
1_جو شخصیت اپنے اختیار اور ارادے سے کوئ بات نہیں کرتی اور کر سکتی وہ میرے لئے کیسے نمونہ ہو سکتی ھے کیونکہ میری کیمسٹری ہی مختلف ھے ۔وہ نعوذ باللہ Remote Controlled اور میں Self Controlled دونوں میں کوئ نقطہ اشتراک ہی نہیں ۔ میرے لئے میری طرح کا ارادہ اختیار اور خواہشات رکھنے والا ہی نمونہ ہو سکتا ھے ۔
2_اگر یہ بات درست ھے کہ آپ کی ہر بات وحی کی پیشگی ہدایت پر ہوتی تھی تو آپ کے کئ ایک فیصلوں کو قرآن نے Approve کیوں نہیں کیا ۔کیا اللہ ایک فیصلہ کرواکے پھر کہتا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟بیویوں کو خوش کرنے کے لئے ؟ یعنی جو اجتہادات نبوی اللہ نے Approve نہیں کئے وہ بھی وحی تھے ؟
اگر آیت کا تعلق آپ کی روزمرہ گفتگو سے نہیں ھے تو آیت کا کیا مطلب ھے اور آپ کے ارشادات کی کیا حیثیت ھے ۔؟
میری رائے میں آیت کا تعلق ارشادات نبوی سے نہیں بلکہ قرآن سے ھے کیونک مکہ والوں کے سامنے آپ کا دعوی یہ نہیں تھا کہ میری زبان سے جبریل یولتے ھیں بلکہ سارا جھگڑا قرآن کے وحی ہونے یا خود ساختہ ہونے کا تھا ۔اور اسی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ وحی ھے ۔رہی یہ بات کہ نطق کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ھے قرآن لوگوں کے سامنے نطق اور گفتگو کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کتاب کی صورت میں نہیں تاہم قرآن نے کتابی بیان کے لئے بھی نطق کا لفظ استعمال کیا ھے ھذا کتابنا ینطق علیکم بالحق ۔
رہی یہ بات کہ آپ کی ذاتی گفتگو کی کیا حیثیت تھی تو قرآن نے اسے دو طرح تحفظ دیا:
 1_قرآن میں ھے  واصبر لحکم ربک فانک باعیننا    آپ ہماری نگاہوں کے سامنے ھیں یعنی آپ کی ہر بات پر ہماری  نگاہ ھے اور ہماری خامشی (تقریر)کو Approval سمجھا جائے ۔اور اگر کہیں کوئ بات مناسب نہ ہوئ تو بتا دی جائے گی 
2_آپ کےبعض اجتہادات کو تبدیل کروانا اس بات کی دلیل ھے کہ آپ کی نجی  سرکاری اور ہمہ پہلو زندگی کے تمام معاملات کو     اگر کسی بات کی تصحیح نہیں کروائ گئ     تو الہی پذیرائ حاصل تھی ۔
     مذکورہ آیت پر ایک جامع تفسیر استاد محترم، فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ کے قلم سے بھی نکلی ہے، مولانا تحریر کرتے ہیں: "معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ  جو کچھ فرمایا کرتے تھے ، وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوا کرتا تھا ، آپ ﷺ کی کہی ہوئی باتوں میں سے بعض تو وہ ہیں ، جن کے بارے میں آپ ﷺ نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، ان کو " حدیث قدسی " کہا جاتا ہے ، یا جن کی آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں بات کا حکم دیا ہے ، فلاں کام کو حلال یا حرام قرار دیا ہے اور فلاں عمل کو پسند یا ناپسند فرمایا ہے تو ایسی باتوں کا اللہ کی طرف سے ہونا بالکل واضح ہے ، دوسرے : وہ باتیں ہیں جن کی آپ ﷺ نے صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت نہیں کی ہے ؛ لیکن ان کو انسان اپنی عقل اور فکر و اجتہاد کے ذریعہ نہیں سمجھ سکتا ، جیسے : عبادات اور حلال و حرام کے احکام ، آپ ﷺ کے زیادہ تر ارشادات اسی نوعیت کے ہیں ، ان کا بھی اللہ کی طرف سے ہونا ظاہر ہے ؛ کیوں کہ جب ان کو عقل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آپ ﷺ کو اس کا علم عطا کیا گیا ہوگا ، تیسری قسم کی باتیں وہ ہیں جن کو آپ ﷺ نے اجتہاد کی بناءپر ارشاد فرمایا ؛ لیکن اگر آپ ﷺ سے اجتہاد میں خطا ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرمادیتے ، جیساکہ بعض اُمور میں تنبیہ کی گئی ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر نکیر نہ کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہی منشاء الٰہی ہے ، چوتھی قسم کی بات وہ ہے جسے آپ ﷺ زبان حال سے فرمایا کرتے تھے ، یعنی زبان سے تو آپ ﷺ نے کچھ نہیں کہا ؛ لیکن آپ ﷺ نے عمل فرمایا ، جیسے ایک صاحب نے نماز کا طریقہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ، اسی طرح نماز پڑھو ، (بخاری ، کتاب الاذان ، باب الاذان للمسافر الخ ، حدیث نمبر : ۶۰۵) یاآپ ﷺ کے سامنے کوئی بات کہی گئی اور آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی ، یا آپ ﷺ کے سامنے کوئی عمل کیا گیا اورآپ ﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ، یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے اس بات کو درست قرار دیا ، تو یہ احکام بھی جو زبان حال سے دیئے گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں ، گویا رسول اللہ ﷺ  نے دینی اُمور میں جو بھی احکام دیئے ہیں ، وہ سب اللہ کی طرف سے القاء کی جانے والی تعلیمات پر مبنی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ  کے اقوال و افعال اور کسی قول و فعل پر آپ ﷺ کی خاموشی جس کو حدیث و سنت کہتے ہیں ، بھی شرعاً حجت ہے اور دین وشریعت کے احکام کا بڑا حصہ اسی دلیل شرعی پر  مبنی ہے." (دیکھئے: آسان تفسیر قرآن مجید)

    محمد صابر حسین ندوی
 


: ٹیگز



السابق
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!

بحث وتحقیق

تازه ترين ٹویٹس

تازہ ترین پوسٹس

اتحاد کی شاخیں