سلامتی کونسل قرارداد سے کچھ ہوگا؟
پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ روکنے کیلئے سلامتی کونسل کی قرار داد کو ’’کچھ نہ ہونے‘‘ سے ’’کچھ ہونا‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ پیش رفت تو ہے مگر معمولی۔
پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ روکنے کیلئے سلامتی کونسل کی قرار داد کو ’’کچھ نہ ہونے‘‘ سے ’’کچھ ہونا‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ پیش رفت تو ہے مگر معمولی۔ معمولی اس لئے کہ جن ملکوں نے اس پر دستخط کئے ہیں کیا اُنہیں یقین ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے مطالبہ کو، جو اس قرارداد کے ذریعہ کیا گیا ہے، مان لے گا؟ اسرائیل اب تک کی تاریخ میں اس کونسل کی جتنی قراردادیں ٹھکرا چکا ہے اُن کی فہرست کو سامنے رکھ کر سوچا جانا چاہئے تھا کہ قرارداد میں کیا ہو۔ اس میں جنگ روکنے کا مطالبہ تو ہے مگر جنگ نہ روکی گئی تو عالمی برادری کی جانب سے اقوام متحدہ کا ادارہ سلامتی کونسل کن اقدامات کو فوری طور پر یقینی بنائے گا اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کے الفاظ بھی سخت نہیں ہیں۔ اس میں کوئی میعاد بھی مقرر نہیں کی گئی ہے کہ دستخط کرنے والے ممالک دو دن یا تین دن تک جنگ بندی کے نفاذ کا بے چینی سے انتظار کرینگے اور اگر اسے نافذ نہیں کیا گیا تو اسرائیل کے خلاف کارروائی جیسی کارروائی کی جائے گی۔ قرارداد کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اسی لئے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے والا امریکہ، یہ کہہ کر اس کے محدود اثرات کو بھی زائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ ’’بائنڈنگ‘‘ نہیں ہے یعنی اس پر عمل کیا جانا ضروری نہیں۔ جو ممالک اس کے حق میں ہیں وہ اسے بائنڈنگ قرار دے رہے ہیں اور امریکہ نان بائنڈنگ کہہ رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کے ماننے نہ ماننے سے پہلے ہی امریکہ نے ٹانگ اَڑا دی۔ اسرائیل کے تعلق سے شبہ پہلے سے تھا، اس نے روایتی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ وہ اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ قرارداد منظور کرنے والے ممالک نفاذ کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے یقیناً میٹنگ کرینگے مگر کب کریں گے؟ جس قرارداد کو کئی بار ویٹو ہونے کے بعد اب منظور کیا جاسکا اور اس محدود کارِ خیر کے انجام پانے تک غزہ بُری طرح تباہ ہوچکا ہے اور اب تک کی جنگ ۳۳؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو نگل چکی ہے، تو ’’فالو اَپ‘‘میٹنگ کیا مزید کئی ہزار جانوں کے اتلاف کے بعد ہوگی؟
ہماری رائے میں یہ قرارداد عالمی قانون،روایات اور اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے اسرائیل کو روکنے اور سبق سکھانے کی کوشش تو ہرگز نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس کی حیثیت نمائشی ہے۔یہ زمین پر ٹھہرے، اثر دکھائے اور مثال بنے اس کا امکان محدود سے زیادہ معدوم ہے۔ اطلاعات کے مطابق قرار داد کی منظوری سے چند گھنٹے قبل اس میں سے ’’مستقل‘‘ کا لفظ ہٹایا گیا جو مستقل جنگ بندی سے متعلق تھا۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ عالمی طاقتیں کس حد تک اسرائیل کی مزاج آشنا ہیں کہ کون سا لفظ اس کو گراں گزرے گا۔ جب یہ کیفیت ہو تو کس برتے پر یہ اُمید کی جائے کہ اس قرارداد کا کوئی اثر ہوگا؟ اس میں اسلحہ کی فراہمی کو روکنے سے متعلق بھی کچھ نہیں ہے جبکہ امریکہ اسے فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی دُہرا رویہ تھا جس کے سبب اس سے قبل کی قرارداد کو چین اور روس نے ویٹوکردیا تھا کیونکہ اس میں جنگ بندی کی بات نہیں کی گئی تھی بلکہ بین الاقوامی سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی شق رکھی گئی تھی جو جنگ بندی پر منتج ہوں۔ یہ وقت ضائع کرنے اور اسرائیل کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کی کوشش تھی۔ خیر اسے تو چین اور روس نے روک دیا مگر اب اس (زیر بحث) قرارداد کو ناکام بنانے کی جو کوشش امریکہ کی جانب سے شروع ہوچکی ہے اُسے کیسے روکا جائیگا؟